مہاجرین اور پناہ گزینوں کے معاملے میں جرمنی کہاں کھڑا ہے؟
18 ستمبر 2023بحیرہ روم میں واقع اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا پر پہنچنے والے ہزاروں مہاجرین یورپی یونین میں تو داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر اٹلی میں نہیں رہنا چاہتے۔ اسی سبب روم میں دائیں بازو کی اتحادی حکومت انہیں روکنے کی بہت کم کوشش کرتی ہے، یہاں سے زیادہ تر تارکین وطن بغیر اندراج کرائے شمال کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
اس جزیرے پر حالیہ دنوں پناہ گزینوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کے بعد فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرانسیسی۔اطالوی سرحد پر پولیس کی موجودگی میں اضافہ کرے گا۔ جرمنی آسٹریا کے ساتھ اپنی جنوبی سرحد پر آنے والوں کی پیشگی اطلاع کے بغیر تلاشیاں لے رہا ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے سرحدی نگرانی سخت کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
یورپی یونین کے سیاسی پناہ کے موجودہ قانون کے تحت پناہ کے متلاشی اپنی درخواست یورپی یونین کی اسی ریاست میں دائر کریں گے، جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا۔ ایسے پناہ گزین جو بغیر اجازت کے بلاک کی کسی دوسری رکن ریاست میں چلے جاتے ہیں وہ کسی بھی وقت اس ریاست میں واپس جا سکتے ہیں جہاں سے وہ پہلی مرتبہ یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔
تاہم اٹلی نے رواں برس اس ضابطے کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور بدلے میں جرمنی نے اب یورپی یونین کے اندر رضاکارانہ داخلوں کے تحت مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
یورپی یونین کی پناہ گزینوں کے لیے ایجنسی کے مطابق یورپی یونین، ناروے اور سوئٹزرلینڈ میں دائر کی جانے والی سیاسی پناہ کی تمام درخواستوں میں سے ایک تہائی جرمنی میں دائر کی جاتی ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے مقامی کونسلیں یہ کہتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں کہ وہ ہر ایک پناہ گزین کے لیے کافی رہائش اور انضمام کے مواقع فراہم نہیں کر سکتیں۔
جرمن وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق اگست 2023 تک جرمنی میں تقریباً 1.1 ملین یوکرینی جنگی پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز کو اس سال دیگر ممالک سے پناہ کی 200,000 سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 77 فیصد زیادہ ہے۔ ان میں سے ستر فیصد درخواست دہندگان مرد ہیں۔
جرمنی میں قیام کی اجازت
سیاسی ظلم و ستم کی بنیاد پر کافی کم تعداد میں لوگوں کو سیاسی پناہ دی جاتی ہے لیکن ان کو میسر تحفظ کی بعض دوسری صورتیں ہیں جو انہیں جرمنی میں قیام کاحق دیتی ہیں۔ جون 2023ء کے آخر میں تقریباً ساڑھے چوالیس ہزار تسلیم شدہ سیاسی پناہ کے متلاشی جرمنی میں مقیم تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ترکی، شام اور ایران سے تھا۔
اسی دوران جنیوا کنونشن کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ رکھنے والے تقریباً ساڑھے سات لاکھ سے زائد لوگ یہاں مقیم تھے، جن کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے تھا۔
تقریباً دو لاکھ اسی ہزار غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ ان میں سے تقریباً نصف پناہ گزینوں کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں۔ تاہم، زیادہ تر کے پاس ''عارضی رہائشی اجازت نام ‘‘ (Duldung) ہے، یعنی ''مادی یا قانونی وجوہات کی بناء پر‘‘ انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔
جرمنی میں 95,000 غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی شہریت کا تعین نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ایسی کوئی جگہ نہیں ہے کہ انہیں قانونی طور پر ملک بدر کیا جا سکے۔
جون کے آخر میں تقریباﹰ پچپن ہزار افراد ایسے تھے جنہیں کسی بھی وقت ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی جرمن حکومت نے 2021 ءکے آخر میں اقتدار سنبھالتے ہی ایسے افراد کی ''وطن واپسی کی کارروائی‘‘ شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن 2022ء میں تیرہ ہزار سے بھی کم لوگوں کو ملک بدر کیا گیا تھا اور 2023ء کی پہلی ششماہی میں یہ تعداد محض 7,861 تھی۔
جرمنی کی طویل سرحد
جرمنی میں ملک بدری کی انجام دہی ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے سیاست دان اب مائیگریشن پالیسی میں تبدیلی اور امیگریشن کو زیادہ مؤثر طریقے سے محدود کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن مہاجرین کی اس تعداد کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ جرمنی کی سرحدیں یورپی یونین کی نو ریاستوں سے ملتی ہیں اور ان کی لمبائی 3,900 کلومیٹر سے کچھ ہی کم ہے۔
وزیر داخلہ فیزر نے حال ہی میں ایک مقامی اخبار کو بتایا تھا، ''سرحدوں کو 'یقیناً‘ بہت سخت انداز میں اور تمام سمتوں سےکنٹرول کیا جاتا ہے۔‘‘
جرمنی اس وقت غیر مجاز اندراجات کا پتہ لگانے اور انہیں روکنے میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ اس کی ایک وجہ کچھ پڑوسی ممالک میں پولیس اور حکام کے ساتھ اچھے تعاون کی وجہ سے ہے۔
جرمنی آمد اور پناہ کی مزید وجوہات
یورپی یونین کے اندر مہاجرین کی مساوی تقسیم کے معاملے پر برسوں سے بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ جون 2023ء میں اس ایک پیش رفت پر جشن منایا گیا تھا، جب یورپی یونین کے وزرائے داخلہ نے سیاسی پناہ کے نظام میں اصلاحات کرنے اور ان تارکین وطن کے لیے یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر فاسٹ ٹریک طریقہ کار متعارف کرانے پر اتفاق کیا تھا، جن کے قیام کی اجازت کے بہت کم امکانات تھے۔ لیکن اس پیش رفت پرعمل درآمد میں مزید کئی سال لگنے کا امکان ہے۔
ہجرت کو محدود کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے اصل ممالک میں ہے۔ شام میں خانہ جنگی اور افغانستان میں طالبان کی جابرانہ حکمرانی کی وجہ سے، جو بھی وہاں سے یورپ جاتا ہے اسے مستقبل قریب میں واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں کا دعویٰ ہے کہ بہت سے تارکین وطن صرف ریاستی فلاح و بہبود پر رہنے کے لیے خاص طور پر جرمنی آتے ہیں، جو کہ دیگر کئی یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
جرمنی میں ہر کسی کو سماجی مدد فراہم کی جاتی ہے، چاہے ان کی پناہ یا رہائش کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہوں۔ باویریا کی ریاست اب اسے تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ سینٹر رائٹ کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے تعلق رکھنے والے ریاستی وزیر اعظم مارکوس زوڈر نے اکتوبر میں دوبارہ انتخاب لڑتے ہوئے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ باویریا میں مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں کو اب رقم نہیں ملے گی، صرف کھانا اور لباس ملے گا۔ زوڈر مہاجرین کے لیے مالی امداد میں بنیادی کمی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
ش ر⁄ ع ا (سبین کنکارٹز)
یہ تحریر پہلی بار جرمن زبان میں شائع کیا گئی تھی۔