مہاجرین سے متعلق پالیسی: میرکل اور یورپی رہنماؤں کی ملاقات
24 ستمبر 2016جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کو حالیہ عرصے کے دوران جرمنی میں مقامی انتخابات کے دوران پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میرکل کی اپنی جماعت کے کئی رہنما بھی میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کو اس شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں میرکل آج آسٹریا، کروشیا، رومانیہ، سلووینیا، سربیا، مقدونیا اور البانیا کے سربراہان اور حکومتی نمائندوں سے تارکین وطن کے معاملے پر اہم ملاقات کر رہی ہیں۔ ان میں سے کئی ممالک کے رہنما شروعات ہی سے جرمن چانسلر کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔
جرمن چانسلر میرکل کی پارٹی برلن میں بھی ہار گئی
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان بھی ان مذاکرات میں شریک ہوں گے جو جرمن چانسلر کے سب سے بڑے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ جمعرات کے روز اوربان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ غیر قانونی طور پر یورپ آنے والے تمام تارکین وطن کو ملک بدر کر کے ایک جزیرے پر رکھا جائے جس کے بعد ان کی درخواستوں پر فیصلے سنائے جائیں۔
یونانی وزیر اعظم الیکسِس سپراس بھی اس موقع پر موجود ہوں گے۔ یونان کا شمار تارکین وطن کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے یورپی ممالک میں ہوتا ہے۔ ’بلقان روٹ‘ بند ہونے کے بعد یونان میں 60 ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ اٹلی اور یونان یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ہیں اور سمندری راستوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی اکثریت انہی دو ممالک تک پہنچتے ہیں۔
یورپی یونین میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ہزاروں تارکین وطن کو رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرنا خاص طور پر یونان کے لیے بہت دشوار ہو چکا ہے۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ترکی میں بغاوت کی کوشش کے بعد اب یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والی ڈیل کا مستقبل کیا ہو گا۔
حالیہ عرصے کے دوران بلغاریہ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ بلغاریہ کے وزیر اعظم بوئیکو بوریسوف بھی مذاکرات کے دوران اپنے ملک کو درپیش مشکلات یونین کے دیگر ممالک کے سامنے رکھیں گے۔
ان مذاکرات میں یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک اور یورپی یونین کے مہاجرین سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر دیمیتریس آوراموپولوس کی شرکت بھی متوقع ہے۔
بلغاریہ یورپی یونین کا سب سے غریب رکن ملک ہے۔ رواں برس ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق معاہدہ طے پانے کے بعد سے بلغاریہ میں 10 ہزار سے زائد تارکین وطن پہنچ چکے ہیں۔ برسلز نے صوفیہ حکومت کو معاونت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
آسٹریا ان مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ویانا حکومت اپنی ملکی سرحدوں کو پوری طرح بند کرنے کی تیاریاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ آسٹرین چانسلر کرسٹیان کیرن کا کہنا تھا کہ آج ہونے والے مذاکرات کا مقصد بلقان کی ریاستوں میں تارکین وطن کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینا ہے۔
شامی مہاجرین زہریلی ٹافیوں کے مانند ہیں، ٹرمپ جونیئر
بچوں کو کھڑکی سے باہر پھینکنے والے مہاجر کے خلاف عدالتی کارروائی