مہاجرین کا انضمام مسلمانوں کو کرنا چاہیے
11 نومبر 2015جرمنی میں کام کرنے والی مسلم فلاحی تنظیموں کو نئے مہاجرین کے معاشرے میں انضمام کے لیے زیادہ سے زیادہ متحرک کیا جائے گا۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہونے والے اسلام کانفرنس کے دوران جرمن وزیر داخلہ نے اس بارے میں اپنی توقعات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ اس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’میری خواہش ہے کہ وہ مسلمان جو اس ملک میں پہلے سے رہتے ہیں، ان کی فلاحی تنظیمیں نئے آنے والے مہاجرین کے لیے بھی پُل کا کردار ادا کریں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی پہنچنے والے ستّر فیصد مہاجرین مسلمان ہیں اور جرمنی میں پہلے سے رہنے والے مسلمان ان کے لیے رول ماڈل ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں رہنے والے مسلمانوں کے پاس وہ ہمدردی ہے، جس کی انہیں ضرورت ہے۔
وزیر داخلہ کے اس فقرے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہاں رہنے والے مسلمان ہجرت کے عمل سے گزر چکے ہیں اور وہ نئے آنے والے مہاجرین کے جذبات اور مشکلات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ریاستی بہبود کے پروگراموں میں مسلم فلاحی اداروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
اسی اسلام کانفرنس میں شریک جرمنی میں خاندانی امور کی خاتون وزیر مانویلا شوَیزگ ابھی سے مہاجرین کے لیے ایسے امدادی مراکز قائم کرنا چاہتی ہیں، جو مسلم امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر چلائے جائیں۔ خاندانی امور کی وزیر کا کہنا تھا کہ پہلے ہی تقریباﹰ دس ہزار مسلمان کارکن امدادی کاموں میں مصروف ہیں اور ابھی تک ان کے ذریعے ایک لاکھ پچاس ہزار افراد فائدہ اٹھا چکے ہیں۔
اسلام کانفرنس میں شریک ترک اسلامک یونین کے ذکریا التوج کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ جرمنی میں موجود اسلامی اداروں کی کارکردگی کو سرکاری اور عوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ابھی تک مسلم فلاحی اداروں کو کم ہی توجہ دی گئی ہے لیکن اب ان فلاحی اداروں کو بھی یہ موقع ملا ہے کہ وہ جرمنی کو اپنی مثبت تصویر سے آگاہ کر سکیں گے۔‘‘ ذکریا کا مزید کہنا تھا کہ وہ فلاحی اداروں کے ذریعے یہ تصویر بدلنا چاہتے ہیں کہ غیرملکی جرمنی میں صرف سماجی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے گی کہ مسلم فلاحی ادارے ان غرباء کی بھی مدد کرتے ہیں، جو مسلمان نہیں ہیں۔