مہاجرین کا بوجھ، جرمن شہروں میں گنجائش خاتمےکے دہانے پر
30 اکتوبر 2022برلن سے تقریباً 90 منٹ کی دوری پر واقع مشرقی جرمن شہر کوٹبس میں حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ہاں رہائش کا مسئلہ ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں کم ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس پناہ گزینوں کو رکھنے کی جگہ تو ہے، لیکن زیادہ نہیں۔
جرمنی آنے والے یوکرینی مہاجرین کی حد مقرر نہیں کی جائے گی، جرمن وزیر
مہاجرین کے لیےرہائش کے لیے ضروری لوازمات کا انتظام کرنا ایک طویل اور مہنگی آبادکاری کے عمل کا صرف آغاز ہے۔ شہر کے ترجمان نے کہا کہ کوٹبس میں یوکرینی پناہ گزین ، پناہ گاہوں کے بجائے اپنی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں حالانکہ یہ سب فرنشڈ نہیں ہیں۔
کوٹبس کے لیے سب سے بڑا چیلنج نئے آنے والوں کو شہر کی زندگی میں ضم کرنا اور خاص طور پر انہیں مناسب تعلیم اور صحت کی دیکھ بحال کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔کوٹبس کے محکمہ تعلیم اور انضمام کی سربراہ، شٹیفنے کیگئسوز شورمان نے کہا، ''وفاقی حکومت ہمیں پناہ کے ابتدائی اخراجات کے لیے معاوضہ دیتی ہے، لیکن جاری اخراجات نہیں۔'' انہوں نے کہا کہ شہر میں پناہ گزینوں کو اضافی مدد کی پیشکش کرنے کے لیے ترجمانوں اور عملے کی کمی ہے، اور وہ رضاکاروں کی سخاوت پر انحصار کرتا ہے۔
انہوں نے طبی سہولیات کا ذکر بھی کیا جنھیں معمول کے مریضوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ جنگی پناہ گزینوں کا اضافی بوجھ اٹھانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔
مہاجرین کا بوجھ
پولینڈ کی سرحد سے کچھ ہی دوری پر اس شہر میں راستوں کی نشاندہی کرنے والے سنگ میل جرمن اور پولش دونوں زبانوں میں ہیں۔ فروری میں روس کے حملے کے بعد کوٹبس یوکرین سے جرمنی کے لیے اخراج کا مرکز بن گیا۔ اب تک ملک میں ریکارڈ کیے گئے تقریباً 10 لاکھ مہاجرین میں سے بہت سے اس ایک لاکھ آبادی والےاس شہر سے گزرے۔
کوٹبس کے شہری اعدادوشمار کے مطابق، یہاں تقریباً 1,500 یوکرینی مہاجرین کو دوبارہ آباد کیا گیا ہے، جن میں ایک تہائی کی عمر ابھی تک اسکول جانے کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مختلف تعلیمی سطح، زبان کی قابلیت اور جنگ سے پیدا ہونے والے صدمے کا شکار تقریباً 500 بچوں اور نوجوانوں کو فوری طور پر مقامی اسکول سسٹم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
جرمنی نے یوکرینی مہاجرین کے ساتھ بہتر سلوک کیا، جرمن وزیر
جرمنی کے کئی حصوں کی طرح کوٹبس کا بنیادی شہری ڈھانچہ بھی کئی طرح کے مسائل سے دوچار تھا۔ شہر کے اہلکاروں کے لیے اس کا حل عمارتوں کی تعمیر ، افرادی قوت کی تربیت اور خدمات حاصل کرنے کی مہم ہے۔ یہ مرحلہ راتوں رات طے نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے ریاستی اور وفاقی مالی مدد کی ضرورت ہے۔ مقامی حکام کی شکایت ہے کہ وفاقی حکومت نے رواں سال کے شروع میں امداد کی فراہمی کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔
شہر میں حکمران فری ڈیموکریٹس کے قانون ساز کونسٹنٹن کوہلے نے حال ہی میں ایک جرمن اخبار کو بتایا، ''ہمیں شہروں اور میونسپلٹیوں کی مقررہ حد سے زیادہ توسیع کا سامنا ہے۔'' کوٹبس کے میئر کے ترجمان جان گلوسمین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجموعی طور پر جرمنی بہت امیر ہے، لیکن دولت کی تقسیم یکساں نہیں ہے۔''
جرمنی میں مہاجرت بڑی حد تک ریاستی سطح کا مسئلہ ہے۔ پناہ گزینوں کی تقسیم ایک الگورتھم پر مبنی ہے جو ریاست کی آبادی اور ٹیکس کی آمدنی کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب جرمنی کے مہاجرت سے متعلق وفاقی دفتر کے مطابق یہ ہے کہ آبادی والی اور نسبتاً امیر مغربی ریاست نورڈرین ویسٹ فالن جرمنی آنے والے تقریباً 21 فیصد پناہ گزینوں جب کہ مشرقی ریاست برانڈنبرگ، جہاں کوٹبس واقع ہے، تین فیصد پناہ گزینوں کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔
جرمنی یوکرینی مہاجرین کو دو ارب یورو بطور مالی امداد دے گا
یہ فارمولا کاغذوں کی حد تک تو قابل عمل ہے، تاہم وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق، ستمبر کے اوائل تک، جرمنی کی 16 ریاستوں میں سے 12 نے اطلاع دی کہ ان کی رہائشی گنجائش ختم ہونے کو ہے۔ اس مہینے کے شروع میں کوٹبس قومی شہ سرخیوں میں آگیا اور اس کی وجہ وہ اعلان تھا جس کے مطابق اس شہر کے منتظمین نے مزید مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
خراب صورتحال
اس ماہ کے شروع میں ریاستی اور وفاقی حکام کے درمیان ایک اجلاس کا مقصد بڑھتی ہوئی تقسیم کو ختم کرنا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ نینسی فائیزر نےپناہ گزینوں کے لیے مزید رہائشیں مہیا کرنے کا اعلان کیا، لیکن انھوں نے اس مقصد کے لیےفنڈز سے متعلق اعداد و شمار بتانے یا آنے والے مہینوں کے لیے کسی منصوبے کا خاکہ پیش نہیں کیا۔ توقع ہے کہ یہ تفصیلات نومبر کے اوائل میں وفاقی اور ریاستی حکومت کے درمیان ہونے والی ایک اور میٹنگ میں سامنے آئیں گی۔
اگرچہ یوکرینی جنگ شروع ہونے کے بعد سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی آمد میں کمی آئی ہے تاہم پناہ کی درخواستیں پچھلے سالوں کی اسی مدت کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ یہ صورتحال فروری کے وسط میں جرمن حکومت کے جائزے سے بہت مختلف ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ''ہجرت کا کوئی امکان موجود نہیں۔''
یورپی اسٹیبلٹی انیشیٹو نامی تھنک ٹینک کے چیئرمین جیرالڈ کناؤس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہم نے مہاجرت کے حوالے سے 2015 ءکے ریکارڈ سال کے مقابلے میں پہلے ہی زیادہ پناہ گزینوں کو جگہ دی ہے۔ روسی قیادت کا ایک مقصد اہم بنیادی ڈھانچے اور شہری مراکز کو نشانہ بنانا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔''
جرمنی میں اگلے سال سے کساد بازاری، اقتصادی اداروں کی پیش گوئی
ایک شہر جو ہمیشہ کے لیےبدل گیا
سابق مشرقی جرمنی کے شہرکوٹبس نے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد سے کئی دہائیوں کی غیر مستحکم صورتحال دیکھی ہے۔ کوٹبس اقتصادی جمود کی ساکھ رکھتا ہے ، اور انتہائی دائیں بازو اور قوم پرست سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔
یہاں گزشتہ برسوں کے دوران بیروزگاری میں کافی کمی آئی ہے، لیکن یہ حال ہی میں سرکاری طور پر 7.2 فیصد تک بڑھ گئی جب کہ ملک بھر میں یہ شرح 5.4 فیصد ہے۔
اسی طرح نقل مکانی نے شہر کی آبادی کی ہئیت بھی تبدیل کر دی ہے۔ جب ایناس تکتک 2014 ء میں شامی شہر حمص سےکوٹبس پہنچے تو یہاں کی چار اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی کم آبادی غیر ملکی تھی تاہم اب یہ شرح بڑھ کر دس میں سے ایک سے زائد غیر ملکی فرد تک پہنچ چکی ہے۔
یہ تبدیلی اس تاریخی شہر کے مرکز اشیائے خورونوش کی عرب دوکانوں کی تعداد، عربی اور دیگر وسطی ایشیائی زبانوں میں گپ شپ کرنے والے نوجوانوں کی ٹولیوں، اور ہیڈ سکارف پہنے خریداری کرتی خواتین کی موجودگی سے بھی عیاں ہے۔
ولیم گلوکرافٹ ( ش ر/ ر ب)