مہاجرین کا مسئلہ: ہم پر انگلی نہ اٹھائی جائے، میانمار
29 مئی 2015تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں آج جمعہ 29 مئی کو 17 ممالک کے وفود جمع ہیں تاکہ خلیج بنگال میں موجود کشتیوں میں سوار ہزاروں تارکین وطن کے مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ میانمار اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ ہزاروں مہاجرین انڈونیشیا یا ملائیشیا پہنچنے کو خواہشمند ہیں۔
غیرقانونی تارکین سے متعلق یہ مسئلہ اس وقت بین الاقوامی توجہ کا بن گیا جب تھائی لینڈ نے رواں ماہ کے آغاز میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ اس کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے یہ غیر قانونی کام کرنے والے مہاجرین کی کشتیوں کو کھلے سمندر میں بے یار ومدگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ بھوک اور مشکل ترین حالات سے دوچار افراد کی تصاویر جب میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچیں تو عالمی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس ایک روزہ میٹنگ میں جو وزارتی سطح کی بھی نہیں ہے، ہزاروں زندگیوں سے متعلق اس مسئلے کے حل میں کسی پیشرفت کا باعث بن بھی سکے گی یا نہیں۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے UNHCR کے اسسٹنٹ ہائی کمشنر فار پروٹیکشن، فولکر ترک Volker Turk نے افتتاحی خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے جو قتل وغارت گری سے بچنے کے لیے میانمار کے مغربی علاقوں سے کئی برسوں سے مہاجرت اختیار کر رہے ہیں۔
فولکر ترک کا کہنا تھا کہ اصل وجوہات تک پہنچنے کے لیے ’’میانمار کی طرف سے اپنے تمام لوگوں کی مکمل ذمہ داری اٹھائے جانے کی ضرورت ہوگی‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دی جانا حتمی مقصد ہے۔‘‘
میانمار 13 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکاری ہے اور نہ ہی انہیں ایک باقاعدہ نسلی اقلیت کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس کی بجائے وہ انہیں ’بنگالی‘ کا نام دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ہمسایہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مہاجرت سے متعلق ادارے کے اعلیٰ عہدیدار کے ان الفاظ پر میانمار کے وفد کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ میانمار کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل تِن لِن Htin Lynn کا کہنا تھا، ’’کشتیوں پرسوار غیر قانونی تارکین وطن کے اس مسئلے پر آپ میرے ملک کو الگ تھلک نہیں کر سکتے۔‘‘
تِن لِن کا مزید کہنا تھا کہ فولکر کے یہ الفاظ مہاجرین کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بعض مسائل‘ داخلی معاملات ہیں۔