1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کو حقیقی شناخت چھپانے کا فائدہ یا نقصان؟

شمشیر حیدر Jones, Timothy
5 ستمبر 2017

جرمن حکام اب قانونی طور پر مہاجرین کے موبائل فون کا جائزہ لے کر ان کی حقیقی شناخت اور آبائی وطن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے مجاز ہیں۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے کرسٹوف ہاسلباخ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/2jM7L
[No title]
تصویر: Ehsan Hadid

موبائل فون ریکارڈ کا جائزہ لینا ایک درست اقدام ہے۔ پناہ کے درخواست گزاروں کے لب لہجے کا تجزیہ اور فون کا ریکارڈ دیکھ کر حکام اب ان کی حقیقی شناخت اور آبائی وطن کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ اقدامات کرنے میں جرمنی نے کافی تاخیر کی ہے۔

مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے دو برس بعد

مہاجرین کے روپ میں 60 جنگجو جرمنی پہنچے، رپورٹ

بحران کے دو سال، جرمنی میں پناہ گزینوں کا انضمام کیسا رہا؟

مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن ادارے (بی اے ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی آنے والے ساٹھ فیصد کے قریب تارکین وطن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں۔ زیادہ تر پناہ گزین دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی دستاویزات دوران سفر کھو گئی تھیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت کے پاس قیمتی اسمارٹ فون موجود ہوتے ہیں۔

مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟

شناخت نہ ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پناہ کی درخواست دینے والے افراد کو معلوم ہے کہ شامی مہاجرین کو جرمنی میں آسانی سے پناہ مل جاتی ہے۔

کئی دیگر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین شامی شہری ہونے کا دعویٰ اسی لیے کرتے ہیں۔

جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افراد کی بڑی تعداد کے باعث بی اے ایم ایف کے اہلکاروں پر کافی دباؤ تھا اور ہے، اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی تارکین وطن ایسے فراڈ کر پاتے ہیں۔

 

جرمن فوج کے ایک اہلکار فرانکو اے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ فرانکو سے انٹرویو لینے والے اہلکار نے اس سے کئی بنیادی سوال پوچھے ہی نہیں تھے۔ اس معاملے کے بعد یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوا کہ اگر ایک جرمن اس قسم کا فراڈ کرنے میں کامیاب رہا ہے تو اور کتنے ایسے واقعات رونما ہوئے ہوں گے؟ علاوہ ازیں درجنوں ایسے کیس بھی سامنے آئے کہ ایک ہی تارک وطن نے متعدد جرمن ریاستوں میں رجسٹریشن کراتے ہوئے ہر ماہ ایک سے زائد جگہوں سے سماجی مراعات حاصل کیں۔

لیکن اب ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے متعدد ضوابط متعارف کرائے گئے ہیں۔ شناخت کے بارے میں کسی شک کی صورت میں موبائل فون کا ریکارڈ حاصل کرنا بھی ایسا ہی ایک ضابطہ ہے۔

جرمنی میں پناہ کے حصول کے خواہش مند ایسے افراد کو، جنہوں نے کسی فراڈ سے کام نہیں لیا، اہلکاروں کی جانب سے شک کی صورت میں اپنا موبائل اور تمام ریکارڈ جمع کرا دینا چاہیے۔ اس میں ان کا فائدہ بھی ہے۔

بات ذاتی ڈیٹا اور پرائیویسی کی نہیں ہے اورحقوق بھی صرف مہاجرین اور تارکین وطن ہی کے نہیں ہیں بلکہ انہیں قبول کرنے والے میزبان معاشرے کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سیاست دان کہتے ہیں کہ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ ہمارے ہاں آ کون رہا ہے؟ طویل عرصے تک سیاست دانوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی، لیکن اب آخرکار مہاجرین کو اپنی اصل پہچان بتانا پڑے گی۔