مہاجرین کو روکنے والا یورپی بحری مشن ’آپریشن صوفیہ’ خطرے میں
30 اگست 2018روم نے دھمکی دی ہے کہ اگر اُس کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ مشن صوفیہ کے لیے اپنی بندرگاہیں بند کر دے گا۔ اطلاعات کہ مطابق اطالوی حکومت آج ویانا میں اس حوالے سے یورپی وزرائے دفاع اور خارجہ کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں یورپی یونین کے ارکان سے مطالبہ کرے گی کہ وہ آپریشن صوفیہ کے تحت بچائے جانے والے مہاجرین کو قبول کریں۔
سمجھوتے کی معمولی امید کے ساتھ ہی اس معاملے پر جاری حالیہ تنازعے کے سبب بحیرہ روم میں یورپی سرحدوں کی نگرانی پر مامور ’’آپریشن صوفیہ‘‘ نامی یورپی بحری مشن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
آپریشن صوفیہ کا تنازعہ کیا ہے؟
آپریشن صوفیہ کو سن 2015 میں بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے ہلاکت خیز واقعات کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تھا۔ اس مشن کا کام مہاجرین کو یورپ کے سفر پر بھیجنے والے انسانی اسمگلروں کا قلع قمع کرنا ہے۔ آپریشن صوفیہ میں یورپی یونین کے چھبیس ممالک حصہ لے رہے ہیں جن کی قیادت فی الحال اٹلی کر رہا ہے۔
سمندر میں جن تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچایا جاتا ہے ، انہیں اٹلی میں اتارا جاتا ہے۔ لیکن نئی اطالوی حکومت چاہتی ہے ان قواعد کو تبدیل کرتے ہوئے یورپی بلاک کے باقی ممالک کو بھی اپنی بندرگاہوں پر مہاجرین کے ایسے جہاز لنگرانداز کرنے کا پابند بنایا جائے۔
اٹلی کی حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کے مطالبات آئندہ ہفتے تک پورے نہ کیے جانے کی صورت میں وہ صوفیہ مشن کے لیے اپنی بندرگاہیں بند کر دے گا۔
حالیہ کچھ عرصے میں روم نے مہاجرین کے کئی ایک جہازوں کو اپنی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے سے روکے رکھا تاکہ اس حوالے سے اٹھائیس رکنی بلاک پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ کچھ ہی دن پہلے اٹلی نے ایک امدادی جہاز پر موجود ڈیڑھ سو مہاجرین کو اس وقت اترنے دیا جب آئر لینڈ اور البانیہ کی جانب سے ان میں سے کچھ تارکین وطن کو لینے کی یقین دہانی کرا دی گئی۔
بین الاقوامی قانون کی روشنی میں بحیرہ روم میں بچائے جانے والے تمام تارکین وطن کو محفوظ بندرگاہ تک پہنچایا جانا چاہیے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگرچہ جرمنی اٹلی کے جذبات سمجھتا ہے تاہم وہ یورپی یونین کے تمام رکن ممالک سے توقع کرتا ہے کہ موجودہ معاہدوں کی پاسداری کی جائے۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی