مہاجرین کو یورپی سردیوں کا سامنا
1 اکتوبر 2015سربیا اور کروشیا میں رُکے ہوئے مہاجرین اپنی اگلی یورپی منزل کے منتظر ہیں اور اب موسم میں خنکی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے مہاجرین کے لیے یورپی سردیاں جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ کئی مہاجرین کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں اور بہت سارے ابتدائی سردی کے ایام میں بخار اور زکام میں مبتلا بھی ہیں۔
سربیا اور کروشیا کی سرحد پر سینکڑوں مہاجرین میں ایک افغانستان کی اسینہ انصاری بھی ہیں،جو سرحد پر کیچڑے میں کھڑی اپنے دو سالہ بیمار بچے کے لیے چائے اور کسی خشک مقام تک پہنچنے کی کوشش میں ہے۔ وہ کسی طرح سویڈن پہنچ جانا چاہتی ہے کیونکہ وہاں اُس کا انکل پہلے سے پناہ لیے ہوئے ہے۔ اسینہ انصاری کے ساتھ کئی سو دیگر مہاجرین بھی گرما گرم سوپ اور چائے کے منتظر ضرور ہیں لیکن سرحدی مقام سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے کے اہلکار ڈاوور راکو (Davor Rako) کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو ایسے یورپی موسم کا تجربہ نہیں اور وہ بس کم لباس ہی میں یورپ کی جانب چل پڑے تھے۔
بلقان علاقے میں مسلسل بارشوں کے ساتھ شدید ٹھنڈی تیز ہوا نے معمول کے درجہٴ حرات کو بہت کم کر دیا ہے۔ اِس باعث طویل اور مشکلات کے حامل سفر کے اختتام سے قبل اِن مہاجرین کو شدید موسم کی وجہ سے مایوسی کی کہر کا سامنا ہے۔ کئی مہاجرین کے ہمراہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں۔ امدادی ورکرز اِن پناہ گزینوں کی مدد کر رہے ہیں۔ جس رفتار سے مختلف یورپی ملکوں میں سرد موسم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اِس سے مہاجرین کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیوں کہ بلقان کی ریاستوں میں نومبر کی راتوں میں درجہٴ حرارت نقطعہٴ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے۔
شام، عراق اور اریٹریا سمیت کئی دوسرے بحران زدہ ملکوں کے مہاجرین بلقان کی ریاستوں سے گزرتے ہوئے آسٹریا، جرمنی اور دوسرے خوشحال یورپی ملکوں تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ کئی پناہ گزین ترکی اور یونان سے بھی بلقان کی ریاستوں کروشیا اور سربیا میں داخل ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایام میں کروشیا سے سربیا میں ستاسی ہزار سے زائد پناہ گزین داخل ہوئے تھے۔ کئی امدادی ادارے اور طبی گروپ اِن مہاجرین کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی رضاکار گروپوں کی جانب سے اِن مہاجرین میں پلاسٹک کے پونچو اور سردی سے بچنے کے لیے کمبل بھی تقسیم کیے جا چکے ہیں لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ مہاجرین کو بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔