1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی جرمنی آمد میں کمی بدستور برقرار

عاطف توقیر9 اگست 2016

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے نئے مہاجرین کی تعداد میں جولائی میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔ جولائی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والوں کی تعداد قریب 16 ہزار رہی۔

https://p.dw.com/p/1JeSD
Deutschland Flüchtlinge Passau
تصویر: Getty Images/J. Simon

جرمنی کی وزارت داخلہ کی جانب سے پیر کے روز بتایا گیا ہے کہ جولائی کے مہینے میں جرمنی میں سیاسی پناہ کی 16 ہزار ایک سو 60 نئی درخواستیں موصول ہوئیں اور یہ تعداد گزشتہ تین ماہ سے بدستور قریب ایک سی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ برس موسم خزاں میں مہاجرین کے بحران کی بلند ترین سطح سے نہایت کم ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کے لیے درخوست دینے والوں میں زیادہ تر شامی شہری شامل ہیں۔

سن 2015ء میں جرمنی میں قریب گیارہ لاکھ افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، جب کہ صرف ماہ نومبر میں یہ تعداد دو لاکھ چھ ہزار تھی۔ مہاجرین کی سب سے زیادہ بڑی تعداد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان اور پھر خطّہٴ بلقان کی ریاستوں کا راستہ استعمال کرتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ پہنچی۔ ان مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد جرمنی پہنچی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس جنوری میں قریب 92 ہزار مہاجرین نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں، جب کہ رواں برس مجموعی طور پر دو لاکھ 38 ہزار چار سو 24 نئی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ تاہم جرمن حکام اس سلسلے میں یہ بتانے سے گریز کر رہے ہیں کہ رواں برس مجموعی طور پر کتنے مہاجرین جرمنی پہنچ سکتے ہیں۔

Deutschland Flüchtlinge Tempelhof Berlin
جرمنی میں ایک ملین سے زائد مہاجرین پہنچے ہیںتصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ شام کے بعد جن ممالک کی باشندوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں جمع کرائیں، وہ افغانستان، عراق، اریٹریا اور روس تھے۔

رواں برس مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جب کہ بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی سرحدیں بند کر دینے کی وجہ سے بھی تارکین وطن کا مغربی یورپ کی جانب بہاؤ کسی حد تک رکا ہے۔ تاہم ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش، وہاں جاری حکومتی کریک ڈاؤن اور یورپ کے ساتھ انقرہ حکومت کے بگڑتے تعلقات کے تناظر میں یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ راستہ ایک مرتبہ پھر کھل سکتا ہے۔