’مہاجرین کی ڈیل‘ اب کیا ہو گا؟
17 جولائی 2016ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والی ڈیل کے باعث ترکی سے یورپی ممالک آنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت سے حلقے اس ڈیل کو کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد اب اس معاہدے کو تو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ناقدین کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر لیں گے۔
اس صورتحال میں ایردوآن یورپ کے ایسے مطالبات کو نظر انداز کر سکتے ہیں، جن میں انقرہ حکومت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ شہری حقوق کا احترام کریں۔ بہت سے حلقوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ترکی کے موجودہ سیاسی منظر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایردوآن اپنے مخالفین کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر سکتے ہیں۔ یوں مارچ میں طے پانے والی مہاجرین کی ڈیل پر عملدرآمد کے لیے یورپی یونین کی کوششیں پیچیدہ شکل اختیار کر سکتی ہیں۔
کل بروز پیر یورپی یونین کے وزرائے خارجہ برسلز میں ملاقات کر رہے ہیں، جس میں ترکی کی موجودہ صورتحال اور مہاجرین سے متعلق اس ڈیل پر تفصیلی بحث متوقع ہے۔ ان مذاکرات میں شریک ایک یورپی سفارتکار نے روئٹرز کو بتایا، ’’ایردوآن کے ردعمل سے ہی انہیں پرکھا جائے گا۔‘‘ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس سفارتکار کا کہنا تھا کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ججوں کی معطّلی اور گرفتاریوں سے خدشات ابھرے ہیں کہ ترکی میں آزادی رائے و احتجاج کی صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔
اس یورپی سفارتکار کے مطابق اگر صدر ایردوآن فوجی بغاوت کرنے والوں کو سزا دینے کی خاطر عوامی مطالبات کے تحت سزائے موت پر عملدرآمد کو بحال کرتے ہیں یا وہ کرد نسل کے ممبران پارلیمان کو قید کرتے ہیں تو یورپی حکام مہاجرین کی ڈیل کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں۔
یورپی پارلیمان کے کچھ ممبران نے واضح کیا ہے کہ اگر انقرہ حکومت کسی بھی کرد ممبر پارلیمان کو گرفتار کرتی ہے تو ترک شہریوں کو شینگن زون میں ویزہ فری انٹری دینے کے قانون کی مخالفت شروع کر دی جائے گی۔
دوسری طرف جرمنی میں بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی حامل خاتون سیاستدان مارٹینا مشلز نے کہا ہے کہ ایسے ترک صدر کا ساتھ دینا دراصل یورپ کی ناکامی ہے، جس نے اپنے ملک کو ہی عدم استحکام کے راستے پر ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایردوآن کے ساتھ ڈیل کرنا ایک غلط فیصلہ تھا، جسے اب ترک کر دینا چاہیے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسی ڈیل کے باعث ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے اور اگر ترک حکومت اپنے ملک میں موجود تقریباً 2.7 ملین مہاجرین کی نگرانی ختم کرتی ہے تو لاکھوں کی تعداد میں مزید مہاجرین بحیرہ ایجیئن کے راستے یونانی جزیروں کی طرف روانہ ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔