مہاجرین کی ڈیل کے پیسے کہاں ہیں؟ ترک صدر یورپی یونین پر برہم
2 ستمبر 2016رواں برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والی ڈیل کے تحت ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں موجود تقریباﹰ تین ملین مہاجرین کی بہبود کے لیے کام کرے اور انہیں بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یورپی یونین میں داخل ہونے سے روکے۔ اس کے عوض ترکی کو چھ ارب یورو سرمایہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ترک باشندوں کو شینگن ممالک کے سفر کے لیے ویزا کی پابندی ختم کر دی جائے گی۔
جمعے کے روز اپنے ایک بیان میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ترکی میں موجود تین ملین مہاجرین کے لیے انقرہ حکومت کو چھ ارب یورو ادا کیے جائیں گے، مگر یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ ’’ہوا یہ ہے کہ اب تک اس سلسلے میں صرف 183 ملین یورو ہی دیے گئے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اور یہ پیسے بھی ہمیں نہیں دیے گئے، بلکہ یونیسیف کے حوالے کیے گئے ہیں۔ مہاجرین کا بحران اتنا بڑا ہے کہ کوئی بھی ملک اس کا مقابلہ تنہا نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے ہم سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔‘‘
یورپ میں اب یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ مارچ میں جس ڈیل کے تحت روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں مہاجرین کو یونان پہنچنے سے روکا گیا، یہ ڈیل کسی بھی وقت ختم سکتی ہے۔ ترکی کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ یورپی یونین نے اس ڈیل میں طے کیے گئے نکات پر عمل درآمد نہیں کیا۔
دوسری جانب اگلے ہفتے جرمنی، فرانس اور اٹلی کے سربراہان جی ٹوئنٹی اجلاس کے حاشیے میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ایک مشترکہ ملاقات کر رہے ہیں۔ ترکی کی جانب سے واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ اگر یورپی یونین نے اپنے وعدے کے مطابق ترک باشندوں کو شینگن ممالک کی ویزا فری انٹری نہ دی، تو ترکی مہاجرین کی ڈیل سے دست بردار ہو جائے گا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہزاروں مہاجرین بحیرہ ایجیئن کے راستے غیرقانونی طور پر یونان پہنچنا شروع ہو سکتے ہیں۔
ادھر انگیلا مریکل سمیت دیگر یورپی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ ترک باشندوں کو یورپی ممالک کے ویزا فری سفر کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جائے گی، اگر انقرہ حکومت یورپی یونین کی جانب سے دیے گئے 72 مطالبات پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔
ان مطالبات میں ترکی سے ملک میں انسداد دہشت گردی کے متنازعہ قوانین کو یورپی یونین کے قوانین سے مطابقت پیدا کرنے اور ملک میں آزادی اظہار کو یقینی بنانے جیسے نکات شامل ہیں۔ ترک حکومت نخے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قوانین کسی صورت تبدیل نہیں کرے گی۔