مہاجرین کے بحران میں شدت، آسٹریا سے یونانی سفیر کی واپسی
26 فروری 2016مہاجرین کے بحران کے تناظر میں یورپی یونین کی رکن ریاستیں ابھی تک کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔ اس بحران کی شدت میں اضافے کہ وجہ سے اب اس اٹھائیس رکنی بلاک میں تقسیم مزید نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
ایک نئی پیشرفت میں یونان نے آسٹریا سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ ایتھنز حکومت نے یہ قدم ایک ایسے وقت پر اٹھایا ہے، جب آسٹریا اور بلقان کی ریاستوں کے مابین مہاجرین کے بحران کے تناظر میں منعقدہ ایک میٹنگ میں یونان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس بحران میں یونین کی رکن ریاستیں انفرادی سطح پر اقدامات کر رہی ہیں، جس کی وجہ مشترکہ حکمت عملی کا فقدان ہے۔ مالی مشکلات کے شکار ملک یونان کا کہنا ہے کہ یونان میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ایتھنز کو شدید انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آسٹریا اور بلقان کی ریاستوں کی کوشش ہے کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو وہیں روک دیا جائے تاکہ وہ دیگر ممالک کا رخ نہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر یونان نے اپنے غم و غصے کا برملا اظہار کر دیا ہے۔ یونانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’انیسویں صدی‘ کا رویہ آج کے دور میں قابل قبول نہیں ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ویانا میں تعینات یونانی سفیر کو واپس بلا لیا۔
یونانی وزیر برائے مہاجرت Yannis Mouzalas نے بھی اختلافات کے باعث کہا ہے کہ ان کا ملک ’یورپ کا لبنان‘ نہیں بنے گا۔ ان کا اشارہ لبنان میں پناہ لیے ہوئے شامی مہاجرین کی طرف تھا۔ شامی بحران کے نتیجے میں سن 2011 سے ہی لبنان میں شامیوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی، جو اب تک ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
اس صورتحال میں یورپی یونین کے تارکین وطن سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر Dimitris Avramopoulos نے خبردار کیا ہے کہ اگر یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی نہیں ہوتی تو مہاجرین کے لیے اس بلاک کی طرف سے تشکیل دیا گیا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام رکن ممالک کو مل کر اس بحران سے نمٹنے کے لیے متفقہ طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔
پاسپورٹ فری ’شینگن زون‘ خطرے میں
اسی بحران کی وجہ سے یورپی یونین کا پاسپورٹ فری ’شینگن زون‘ بھی متاثر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ متعدد رکن ممالک نے مہاجرین کا راستہ روکنے کی خاطر اپنے اپنے طور پر مختلف قواعد و ضوابط متعارف کرا دیے ہیں۔ یورپی یونین کے ترک وطن سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران کے خاتمے کے لیے اگر دس دنوں کے اندر اندر کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوئے تو خدشہ ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ترتیب دیا گیا نظام ہی درہم برہم ہو جائے گا۔
اس صورتحال میں آسٹریا اور بلقان کی ریاستوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے بنایا گیا نظام مؤثر نہیں ہے جبکہ یونان اس بحران سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہا۔ ان ممالک کا یہ اصرار بھی ہے کہ اگر شینگن زون کے رکن ممالک کی بیرونی سرحدوں کی مؤثر نگرانی نہ کی گئی تو اندرونی سرحدوں کی حفاظت کے معاملے پر بھی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
ادھر بیلجیم نے بھی فرانس کے ساتھ اپنی سرحدوں کی نگرانی کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک فرانسیسی عدالت نے اجازت دے دی ہے کہ کَیلے میں مقیم مہاجرین کو وہاں سے نکالنے کے لیے آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ یہ مہاجرین برطانیہ جانا چاہتے ہیں جبکہ برسلز حکومت کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام کی طرف سے آپریشن کے نتیجے میں یہ مہاجرین بیلجیم کا رخ کر سکتے ہیں۔