1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخایشیا

مہذب معاشروں کی تشکیل، غلامی اور خانہ بدوشوں کی تاریخ

18 جون 2021

تاریخ میں جب انسانی معاشرے نے زراعت اور کھیتی باڑی کو اختیار کیا تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری تھا کہ نظام آبپاشی کو ترقی دی جائے۔ یہ اس لئے ضروری تھا کیونکہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ پیداوار کو بھی بڑھانا تھا۔

https://p.dw.com/p/3v94U
Malerei Dschingis Khan
تصویر: akg-images/picture-alliance

اس زائد پیداوار پر حکمران طبقہ قبضہ کر لیتا تھا کیونکہ اس کی آمدنی کا یہی سب سے بڑا ذریعہ تھا اور اس سے، جو آمدنی ہوتی تھی، اس کو وہ اپنے ریاستی اداروں پر خرچ کرتا تھا، اپنے لئے شاندار عمارتیں تعمیر کراتا تھا۔ تاجر طبقہ اگرچہ بیرونی اور اندرونی تجارتی سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا اور غیر ملکی تجارت میں یا تو وہ اشیاء کا تبادلہ کرتا تھا یا انہیں سونے کے عوض فروخت کرتا تھا۔ یہ طبقہ سونا ذخیرے کی صورت محفوظ رکھتا تھا۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پیداواری عمل میں بہت کم حصہ تھا۔ کاریگر اور دست کار محدود تعداد میں ضرورت کی اشیاء بناتے تھے۔

جیمز سی سکاٹ نے اپنی کتاب 'ایگینسٹ دا گرین‘ میں آبپاشی کے نظام کے تحت پیدا ہونے والی ریاست، اس کی ساخت اور معیشت پر بحث کی ہے۔ اس نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ آبپاشی کی ریاست میں جو تہذیب و تمدن پیدا ہوا، اس نے اپنے ہمسایہ خانہ بدوش قبائل کو شامل نہیں کیا اور انہیں بار بیرین اور غیر مہذب قرار دیا۔

جیمز نے آبپاشی کی ریاست کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے پاس زمین کی پیداوار کے علاوہ آمدنی کا اور کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ اس آمدنی کے حصول کے لئے دو طریقوں کو اپنایا گیا۔ ایک تو ریاست نے انتہائی جبر کے ساتھ ٹیکس وصول کرنا شروع کیا۔ اس جبر کی وجہ سے اکثر کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر ہمسایہ خانہ بدوش قبائل سے مل جایا کرتے تھے۔ اس لئے ریاست کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسانوں کو فرار نہ ہونے دیا جائے۔ لہٰذا چین میں دیوار چین حملہ آوروں کو روکنے کے لئے ہی نہیں تھی بلکہ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر نہ جائیں۔

کھیتی باڑی کے لیے غلاموں کی ضرورت

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کاشت کاری کے لئے نئی زمین کو حاصل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے جنگلوں کو صاف کرنا اور دلدلی علاقوں کو بھی کھیتی باڑی کے لئے استعمال کرنا ضروری تھا۔ ان منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے لوگوں کی ضرورت تھی۔ لہٰذا کانسی کے دور میں جو کہ آج سے پانچ ہزار قبل تھا۔ اس میں شہری ریاستیں اور سلطنتیں باہمی جنگ و جدل میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو گئیں۔ اس دور میں جنگ کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو مال غنیمت حاصل کرنا، شکست کھانے والے شخص کے شہروں کو لوٹنا اور پھر عورتوں اور مردوں کو غلام بنا کر لانا۔

Mubarak Ali
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

یہ غلام حکمران طبقے کی ملکیت ہوتے تھے اور ان سے کھیتی باڑی کرائی جاتی تھی، جو کسی صنعت میں ماہر ہوتے تھے وہ کاریگری کا کام کرتے تھے۔ یہ غلام عمارتوں کی تعمیر کا کام کرتے تھے۔سڑکیں بناتے تھے اور گھریلو کام کاج بھی کرتے تھے۔ کچھ غلاموں کو فوجی تربیت دے کر جنگ میں لڑایا بھی جاتا تھا۔ اس لئے آبپاشی کی اس ریاست کا انحصار غلاموں کی سپلائی پر تھا اور اس کے لئے ضروری تھا کہ برابر جنگیں ہوتی رہیں۔

جب فوجیں کسی ملک پر حملہ آور ہوتی تھیں تو دشمن پہچاننے کے لئے اس کے کھیتوں اور شہروں کو تباہ کر دیتی تھیں، لیکن اس کی وجہ سے وہ خود بھی نقصان اٹھاتی تھیں۔ مثلاً جب چار صدی قبل مسیح میں ایران نے یونان پر حملہ کیا اور ایتھنز پر قبضہ بھی کر لیا، مگر وہ زیادہ عرصے نہ رُک سکے کیونکہ ان کی فوج کے لئے رسد کا انتظام نہ تھا۔

آبپاشی کی ریاست نے اپنی محدود آمدنی کے باوجود عالی شان عمارتیں تعمیر کرائیں، آرٹ و ادب کی سرپرستی کی، شہر بسائے اور ایک طبقاتی معاشرہ پیدا کیا، جس میں حکمران اور امراء عوام کا استحصال کرتے تھے اور ان کی محنت کو استعمال کرکے اپنے لئے سہولتیں مہیا کرتے تھے۔

خانہ بدوش قبائل اور آبپاشی کی ریاست

آبپاشی کی ریاست کے ساتھ ساتھ خانہ بدوش قبائل آباد تھے۔ ان میں اور ریاست میں تصادم بھی ہوتا رہا تھا، کیونکہ یہ خانہ بدوش قبائل اکثر بستیوں پر حملہ کر کے لوٹ مار کرتے تھے۔ اس لئے ان کو قابو میں رکھنے کے لئے ریاست نے ان کے خلاف فوجی اقدامات کئے۔ لیکن جب اس میں اسے کامیابی نہ ہوئی تو ان قبائل کے حملوں کو روکنے کے لئے انہیں تحفے تحائف اور رشوت بھی دی، جیسا کہ چین کے ہاں خاندان نے شن ہو قبائل کو پرامن رکھنے کے لئے ہر سال انہیں سلک کے تھان دیے اور چینی شہزادیوں سے ان کی شادیاں کیں۔

جیمز سی سکاٹ نے خانہ بدوش قبائل کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کا مقابلہ شہری اور تہذیبی زندگی سے کیا ہے۔ یہ قبائل آزاد اور خود مختار تھے۔ کسی حکمران اور قانون کے ماتحت نہیں تھے۔ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے۔ معاشرے میں سب برابر تھے، عورتوں کی عزت کی جاتی تھی اور وہ بھی ان کے ساتھ جنگوں اور مہموں میں شریک ہوتی تھیں۔ نجی جائیداد کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایک جگہ مستقل نہیں رہتے تھے۔ مویشی پالتے تھے، کھانے میں گوشت ہوتا تھا، روٹی نہیں تھی، اٹیلہ نے کبھی روٹی نہیں چکھی تھی صرف گوشت کھاتا تھا۔

چونکہ خانہ بدوش قبائل آپس میں جنگیں کرتے تھے، اس لئے یہ لڑائی میں ماہر ہو گئے تھے۔گھوڑے پالتے تھے اور گھوڑ سواری میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ خیموں میں رہتے تھے، کھلی آب و ہوا کی وجہ سے صحت مند ہوتے تھے۔ عادات کے لحاظ سے درشت مزاج اور اکھڑ بھی ہوتے تھے۔ لکھنے پڑھنے کا ان میں کوئی رواج نہ تھا۔ مذہبی عقائد بھی ان کے سیدھے سادھے تھے۔

خانہ بدوش قبائل کی فتوحات

اکثر ہمسایہ سلطنتیں ان کی فوجی خدمات حاصل کرتی رہتی تھیں۔ گیارویں صدی عیسوی میں جب کہ سلطنتیں مضبوط اور مستحکم ہوئیں اور اپنی سرحدوں کا دفاع بھی کرنے لگیں تو ان حالات میں بہت سے خانہ بدوش قبائل ان ریاستوں کی فوج کا حصہ ہو گئے۔

ان میں کچھ خانہ بدوش قبائل ایسے بھی تھے، جنہوں نے جنگوں کے ذریعے اپنی حکومتیں قائم کیں، جیسے منگولوں نے فتوحات کے ذریعے وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وسط ایشیا کے قبائل نے سلجوقوں اور عثمانی ترکوں نے فتوحات کے نتیجے میں سیاسی اقتدار حاصل کیا اور ریاستیں قائم کیں۔

لہٰذا تاریخ میں جو مہذب اور غیر مہذب کا فرق تھا وہ ختم ہوتا چلا گیا۔ جن بار بیرین کو رومیوں نے شکست دی تھی، انہی جرمن قبائل نے رومی سلطنت کا خاتمہ کیا۔ ایران کے ہخامنشی خاندان کے دور حکومت میں وسط ایشیا کے خانہ بدوش قبائل ان کی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ اس لئے جب یہ قبائل ان ریاستوں میں شامل ہوئے تو انہوں نے ان کی فوجی قوت کو بڑھایا اور جنگوں میں ان کو کامیاب کرایا۔

تاریخ کے اس مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں جو مہذب اور غیر مہذب کا فرق رکھا جاتا ہے، وہ کوئی مستقل نہیں ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ غیر مہذب ہونے کا معیار بھی تہذیب یافتہ قومیں بناتی ہیں، لیکن ہم مہذب اور باربیرن میں یہ فرق دیکھتے ہیں کہ مہذب ریاستوں میں عوام غلامی کی زندگی گزارتے تھے۔ ریاست کے جبر کو سہتے تھے۔ اس کے برعکس خانہ بدوش قبائل آزاد اور خود مختار تھے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارتے تھے۔