مہسا امینی کی موت: لواحقین ایک سال بعد بھی دباؤ میں
14 ستمبر 2023گزشتہ سال 16 ستمبر کو 22 سالہ جینا مہسا امینی، جو نسل کے اعتبار سے کرد تھیں، ایران کی ''اخلاقی پولیس‘‘ کی زیر حراست ہلاک ہو گئی تھیں۔ مہسا کو مبینہ طور پرغیر مناسب طریقے سے حجاب یا ہیڈ اسکارف پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
امینی کی موت ایران میں نوجوان خواتین کے جذبات کو اس حد تک بھڑکانے کا سبب بنی تھی کہ انہوں نے کئی دہائیوں میں ایران کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک کی قیادت تک سنبھال لی۔ ان کی تحریک نے وہ شہری بدامنی پھیلائی کہ اس اسلامی جمہوریہ کے حکمرانوں کے لیے ایک بے مثال چیلنج بن گیا۔ حکام نے بہیمانہ کریک ڈاؤن کے ساتھ جوابی کارروائی کی جس میں ہزاروں مظاہرین کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
امینی کی موت کے ایک سال بعد بھی ایران میں حکام ہر اُس احتجاج کی علامت کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس سے ان کو خطرہ لاحق ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ویسی ہی شدت اختیار کرے گا جو ایک سال قبل پیدا ہوئی تھی۔ خاص طور پر گزشتہ برس احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والوں کے گھر والوں اور لواحقین کی ہر ایک نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں متاثرین کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا۔ مہسا کیس پر سراپا احتجاج بنتے ہوئے اپنی جانیں گنوانے والوں کے خاندان کے کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان میں ماشااللہ کرامی بھی ہیں، محمد مہدی کرامی کے والد، جنہیں زیر حراست رکھنے کے بعد جنوری 2023 ء میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ بزرگ کرامی کو 21 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اطلاع دی ہے کہ پچھلے پانچ مہینوں کے دوران مظاہروں میں اپنے پیاروں کو کھونے والے تقریباً 70 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 5 ستمبر کو امینی کے چچا کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ایران میں ایک با خبر ذریعے نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دوران احتجاج ہلاک ہونے والوں کی قبروں پر جمع ہونے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ سکیورٹی فورسز سوگوار خاندانوں کو ایران میں مظاہروں کی بحالی کا ممکنہ محرک سمجھتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں بیس سالہ طالب علم مہر شاد شاہدی نژاد کی قبر پر جمع ہونے والے 8 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شاہدی کو اکتوبر 2022 ء میں شہر اراک میں ایک احتجاج کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں کو 6 سال قید اور 74 کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔
سول سوسائٹی پر دباؤ
ایرانی حکام ایک طرف تو سوگوار خاندانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن دوسری جانب صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے لیے سخت قید کی سزاؤں کے ساتھ دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ان میں ایک پچھتر سالہ صحافی کیوان سمیمی بھی شامل ہیں جنہیں '' قومی سلامتی کے خلاف سازش‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، کو حال ہی میں رہا کیا گیا۔
ایلناز محمدی اور نگین باقری، دو نوجوان خواتین صحافیوں کو بھی تین سال کی معطل قید کی سزا سنائی گئی۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک خاتون کارکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''ایران میں بہت سے سیاسی اور سول کارکنوں کے خلاف نئے کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں اکثر پر حکومت مخالف سرگرمیوں کا الزام لگایا گیا ہے۔‘‘
مظاہرے جاری رکھنے کا عزم
تمام تر دھمکیوں کے باوجود سوشل میڈیا کی پوسٹس اور خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی معاشرے میں مزاحمت کا جذبہ اب بھی موجود ہے۔ مظاہرین، خاص طور پر خواتین اور نوجوان اب بھی امینی کی برسی کی یاد میں ہونے والے احتجاجی اجتماعات میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔
سن 2022 کے نومبر سے جنوری 2023ء کے آخر تک مقید رہنے والی، خواتین کے حقوق کی کارکن الہام مودارریسی نے ترکی سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جیل میں گارا ہوا ان کا وقت انہیں ''مضبوط‘‘ اور پہلے سے ہزار گنا زیادہ لچکدار‘‘ بنانے کا سبب بنا ہے۔
ایک اور سیاسی قیدی جس نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنا چاہا ، نے اس امر پر زور دیا کہ ایرانی حکام کی طرف سے کریک ڈاؤن دراصل سکیورٹی اپریٹس کی طرف سے سیاسی اور سول کارکنوں سمیت ایرانی معاشرے میں خوف اور تشویش پیدا کرنے کے لیے ''طاقت کا مظاہرہ‘‘ تھا۔
یوہانا نژدی/ ک م/ ع ب
LINK: /dw/a-66758338