میانمار: اوباما کی تھین سین سے ملاقات
13 نومبر 2014خبر رساں ادارے اے پی نے میانمار کے دارالحکومت نیپیداو سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ برما پہنچنے پر امریکی صدر کا شاندار استقبال کیا گیا۔ وہ چین میں منعقد ہوئی ایپک سمٹ کے بعد بدھ کی رات نیپیداو پہنچے۔ ایشیا پیسفک خطے کے آٹھ روزہ دورے کے دوران میانمار اوباما کا دوسرا ٹھکانہ ہے۔ وہ ویک اینڈ پر آسٹریلیا روانہ ہو جائیں گے، جہاں وہ جی ٹوئنٹی ممالک کی سمٹ میں شرکت کریں گے۔
بدھ کی رات اوباما نے نیپیداو میں دیگر علاقائی رہنماؤں کے ہمراہ ایک ثقافتی پروگرام میں شرکت کی۔ اوباما اس دورے کے دوران صدر تھین سین کے علاوہ اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ملیں گے۔ اس دوران وہ ایسٹ ایشیا سمٹ میں بھی شریک ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس نے بتایاہے کہ صدر اوباما میانمار کی حکومت کی طرف سے کی جا رہی حقیقی صلاحات کے بارے میں باخبر ہیں۔ فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد قیام میں آنے والی جمہوری حکومت نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی اور معاشی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ بھرپور معاونت کرے گی۔ لیکن سوچی پر صدارتی انتخانات میں حصہ لینے پر پابندی اور بالخصوص روہنگیا نامی مسلمان کمیونٹی کی ابتر صورتحال عالمی برداری کے لیے تحفظات کا باعث ہیں۔
اس تناطر میں میانمار حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے نیپیداو حکومت سے پابندیاں اٹھانے میں جلد بازی کی ہے۔ یہاں تک کہ اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی نے بھی اوباما کی آمد سے قبل کہا تھا کہ مغربی ممالک ان کے ملک میں اصلاحاتی عمل کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
اسی تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما نے میانمار کے ایک میگزین Irrawaddy کو دیے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ میانمار میں تبدیلی کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگوں کی توقعات کے مقابلے میں اصلاحات کی رفتار سست ہے۔ اوباما نے سابقہ سیاسی قیدیوں پر عائد پابندیوں، صحافیوں کی گرفتاریوں اور روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال کے تناظر میں کہا کہ کچھ معاملات میں تو حکومت پیچھے کی طرف چلی گئی ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ان کے اس دورے کے دوران تھین سین کو ایک واضح پیغام دیا جائے گا کہ ملک کے تمام باشندوں کا خیال رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ اوباما نے میانمار میں تبدیلی کو عمل کو مشکل قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کہ امریکا ہمیشہ ایسے پارٹنرز کے ساتھ ہو گا، جو مشکل حالات میں پرعزم رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار کو حقیقی اصلاحات کے مکمل عملدرآمد کے لیے ابھی کڑا اور طویل وقت درکار ہے۔