1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ میں ملوث: ملائیشیا

3 دسمبر 2016

ملائیشیا نے میانمار کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا اپنا دورہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2TgCz
Indonesien Jakarta Protest vor Botschaft von Myanmar
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com/D. Pohan

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملائیشیا کی حکومت نے میانمار حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ میں ملوث ہے۔ تین دسمبر بروز ہفتہ ملائیشیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’حقیقت یہ ہے کہ وہاں (میانمار میں) صرف ایک ہی نسلی گروہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اس گروہ کی نسل کشی کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘

’ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر کے قیدی‘، امریکا بھی بول اٹھا

دس ہزار روہنگیا جان بچا کر میانمار سے بنگلہ دیش پہنچ گئے

فوجیوں نے ہم سے ایک ایک کر کے جنسی زیادتی کی، روہنگیا خاتون

رواں برس اکتوبر میں میانمار کی ریاست راکھین میں شروع ہونے والے پرتشدد حملوں کے نتیجے میں ہزارہا روہنگیا باشندے اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق کئی ہزار روہنگیا مسلمان اس تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں بھی پہنچ چکے ہیں۔

دوسری طرف میانمار حکومت اس تناظر میں تمام تر بین الاقوامی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ راکھین کا بحران دراصل اس کے ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مبینہ طور پر انتہائی ابتر سلوک عالمی برداری کے لیے مسلسل بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔

ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے 56 ہزار اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ کوآلالمپور حکومت کی طرف سے جاری کردہ اس تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بحران کی کیفیت اتنی شدید ہو چکی ہے کہ اب یہ میانمار کا کوئی اندرونی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اب یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر وجہ تشویش بن چکا ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان ہفتے کے دن راکھین ریاست کے اُس گاؤں کا دورہ کر رہے ہیں، جہاں مقامی روہنگیا آبادی کی املاک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ واپیک نامی اس گاؤں میں روہنگیا باشندوں کے بہت سے مکانوں اور املاک کو نذرآتش کیا جا چکا ہے۔

Rohingya Flüchtlinge Myanmar Bangladesch
روہنگیا کمیونٹی کے ہزاروں افراد میانمار سے فرار ہو چکے ہیںتصویر: Reuters/M.P.Hossain

بتایا گیا ہے کہ کوفی عنان کے ساتھ کسی بین الاقوامی صحافی کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ عنان منگل تک اپنے اس دورے کی تفصیلات صحافیوں کو بتائیں گے۔ میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے جنگجوؤں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے، جنہوں نے بالخصوص راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

دوسری طرف میانمار سے فرار ہو کر ہمسایہ ممالک پہنچنے والے روہنگیا اقلیتی مسلمانوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے خلاف ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں میں ملکی فوج بھی شامل ہے۔ کئی خواتین نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملکی فوجیوں نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی، ان کے مردوں کو ہلاک کر دیا اور گھروں کو آگ لگا دی گئی۔