1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار، سوچی کی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے گی

29 مارچ 2010

میانمار میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس سال ہونے والے انتخابات کے لئے قومی لیگ کو بحیثیت ایک سیاسی جماعت رجسٹرڈ نہیں کرائی گی۔

https://p.dw.com/p/MhGY
تصویر: picture alliance/dpa

میانمار میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس سال ہونے والے انتخابات کے لئے قومی لیگ کو بحیثیت ایک سیاسی جماعت رجسٹرڈ نہیں کرائی گی۔

پیر کو ایک بیان میں اس پارٹی نے کہا کہ انتخابات کے لئے بنائے جانے والے قوانین ناانصافی پر مبنی ہیں۔ میانمار کے انتخابی قوانین کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے کے لئے سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ضروری ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی اپنی مرکزی قیادت کے اس فیصلے کے بعد ملک میں فوجی حکومت کے زیرِ انتظام ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی۔

اس فیصلے سے چھ دن پہلے آنگ سان سوچی نے اپنے ایک بیان میں اس امر کا اشارہ دے دیا تھا کہ ان کی پارٹی ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ تاہم اس فیصلے نے پارٹی کے اندر چند حلقوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ایک سینئر پارٹی رہنما نے خبر رساں ادارے روئٹر کو بتایا: ’’کچھ پارٹی رہنما انتخابات میں حصہ لینے کے حامی تھے۔ لیکن پارٹی قیادت نے ان پر زور دیا کہ وہ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ اس اپیل کا اثر یہ ہوا کہ سارے 115 ووٹ بائیکاٹ کے حق میں گئے۔‘‘

Flash-Galerie Myanmar Burma Aung San Suu Kyi
قومی لیگ برائے جمہوریت نے 1990 میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی لیکن نہ تو جماعت کو اقتدار منقتل کیا گیا اور نہ ہی اس کے بعد سے انتخابات کرائے گئے ہیں۔تصویر: picture alliance/dpa

میانمار میں حزبِ اختلاف کی اس جماعت نے 1990 میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی لیکن تب قومی لیگ برائے جمہوریت کو نہ تو اقتدار منقتل کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کے بعد سے اب تک ملک میں کوئی انتخابات کرائے گئے ہیں۔ سال رواں کے لئے اعلان کردہ عام الیکشن کو بھی آزاد ذرائع اس لئے دھوکہ دہی اور جعلسازی کا نام دے رہے ہیں کہ میانمار میں ہر قسم کے معاملات ابھی تک جنتا کے ہاتھ میں ہی ہیں اور انتخابات کے شفاف ہونے کے آثار بھی بہت کم ہیں۔

قومی لیگ کی طرف سے بائیکاٹ کے متفقہ فیصلے کے باوجود کئی پارٹی رہنما اس اقدام سے خوش نہیں ہیں۔ جو رہنما انتخابات میں حصہ لینے پر زور دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر NLD انتخابات میں حصہ نہیں لیتی، تو وہ قصہء پارینہ ہو جائے گی۔ لیکن پارٹی کے سینئر رہنما وِن ٹِن کا دعویٰ ہے کہ پارٹی زندہ رہے گی اور اس کی سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی۔

نیشنل لیگ نئے انتخابی قوانین کے سخت خلاف ہے۔ ان قوانین کے مطابق جن رہنماؤں کو سزائیں ہو چکی ہیں، وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ آنگ سان سوچی سمیت 2100 کارکنان اور رہنما

سیاسی اسیر ہیں اور وہ ان انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں، کیونکہ حکومت سیاسی اسیران کو بھی سزایافتہ مجرم قرار دیتی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جنتا نے 1990 کے انتخابات کے نتائج سے سیکھتے ہوئے اس بار ایسا آئین بنایا ہے، جس کے تحت الیکشن کے بعد بھی اصل اختیارات میانمار میں فوج ہی کے پاس رہیں گے۔ ان قوانین کی موجودگی میں فوج کو انتخابات میں دھاندلی کرنے یا کرانے کی ضروت بھی نہیں ہوگی۔

امریکہ اور اقوام متحدہ نے میانمار کے اس آئین پر کھلم کھلا تنقید تو نہیں کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی قیدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا، تو یہ انتخابات کسی بھی طور شفاف نہیں ہوں گے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید