میانمار: شمالی راکھین میں فوجی آپریشن روک دیا
16 فروری 2017میانمار کی قومی سلامتی کے مشیر تھاؤنگ تن نے ایک بیان میں کہا،’’شمالی راکھین کی صورتحال اب کافی مستحکم ہے۔ فوج کی جانب سے علاقے کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کی کارروائی روک دی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ کرفیو میں نرمی کر دی گئی ہے اور اب امن وامان کی ذمہ داری پولیس کے ہاتھوں میں ہو گی۔ تھاؤنگ تن کے بقول، ’’آپریشن کے دوران فوج پر زیادتیوں اور انسانیت سوز مظالم کے لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے ہم تیار ہیں۔‘‘
میانمار میں آباد تقریباً گیارہ لاکھ افراد کا تعلق روہنگیا مسلم برادری سے ہے۔ تاہم یہ لوگ مقامی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں۔ 2012ء میں بدھ مت کے پیروں کاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے مابین شدید ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی تھی۔ تاہم تازہ آپریشن کے دوران کئی سو روہنگیا ہلاک ہوئے جبکہ ستر ہزار سے زائد بنگلہ دیش نقل مکانی کر گئے۔
اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا سے بات چیت کر کے جو رپورٹ تیار کی ہے، اس کے مطابق میانمار کے فوجی انسانی سوز جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس دوران دہشت گردوں کے نام پر بے گناہ مردوں کو قتل کیا گیا اور خواتین کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ان الزامات کے بعد ینگون حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں اب حکومت نے بھی ایک کمیشن قائم کیا ہے، جو ان واقعات کی چھان بین کرے گا۔
ابھی گزشتہ ہفتے مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ روہنگیا برادری کو صرف اس وجہ سے قتل کیا جا رہا ہے اور ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ثقافت اور مسلم عقیدے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی مسلم اقلیتی روہنگیا باشندوں کے خلاف میانمار کی فوج کے مظالم کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے ۔ ایمنسٹی کے مطابق میانمار کی فوج قتل، جنسی زیادتی، تشدد، گرفتاریوں اور ریاست راکھین میں روہنگیا باشندوں کے دیہات کو تباہ کرنے جیسے واقعات میں ملوث ہے۔