1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، ہیومن رائٹس واچ

27 اکتوبر 2012

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے ہفتے کے روز اپیل کی ہے کہ میانمار میں فساد زدہ ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/16Y2p
تصویر: CHRISTOPHE ARCHAMBAULT/AFP/Getty Images

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے یہ اپیل ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے، جب فسادات سے متاثرہ راکھین ریاست میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بدھ مذہب کے پیروکاروں اور روہنگیا نسل مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں میں شدید تیزی دیکھی گئی ہے۔ ان واقعات میں درجنوں افراد ہلاک جب کہ سینکڑوں مکانات نذر آتش ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور بھی ہوئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہفتے کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ راکھین میں حکومتی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے وہاں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں مسلسل زور پکڑ رہی ہیں۔ اس تنظیم کی جانب سے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو سکیورٹی فراہم کرے۔ اس بین الاقوامی تنظیم کے مطابق روہنگیا مسلمان ’بدترین حملوں‘ کا شکار ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت راکھین ریاست میں مسلمانوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں تک انسانی بنیادوں پر امداد کو یقینی بنائے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیا فِل رابرٹسن کے مطابق، ’اگر حکومت نے ان فسادات کی بنیادی وجوہات کو ختم نہ کیا، تو معاملات مزید بگڑیں گے۔‘

Myanmar - Flüchtlinge aus Rohingya
راکھین ریاست سے مقامی افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہےتصویر: Reuters

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریاست راکھین میں رواں برس جون سے جاری پرتشدد واقعات میں اب تک 150 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

میانمار کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل کوکو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر راکھین میں تشدد کا سلسلہ جاری رہا، تو حکومت وہاں ہنگامی حالت کا نفاذ کر سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سیٹیلائٹ کے ذریعے حاصل کی گئی تصاویر میں مکانات کی بڑے پیمانے پر تباہی کے مناظر نظر آ رہے ہیں اور زیادہ تباہی ان علاقوں میں ہوئی ہے، جہاں روہنگیا مسلمان آباد ہیں۔

سرکاری میڈیا کے مطابق راکھین میں 21 اکتوبر سے شروع ہونے والی تشدد کی اس تازہ لہر میں اب تک 67 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جمعے کے روز راکھین ریاست کے ترجمان نے ہلاک شدگان کی تعداد 100 بتائی تھی، تاہم بعد میں کہا تھا کہ اعداد و شمار میں غلطی کی وجہ سے یہ تعداد سامنے آئی جبکہ ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد 67 ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ راکھین میں ہلاک شدگان کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے افراد کے بیانات کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ نے کہا،’ممکن ہے حکومت تنقید سےبچنے کے لیے ہلاک شدگان کی اصل تعداد پر پردہ ڈال رہی ہو۔‘

واضح رہے کہ میانمار میں آٹھ لاکھ روہنگیا نسل کے مسلمان آباد ہیں، جن کے بارے میں میانمار میں عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ یہ لوگ ہمسایہ ممالک سے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے۔ روہنگیا مسلمان بنگالی لہجے کے حامل افراد ہیں اور اقوام متحدہ ایک عرصے تک انہیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنے والی اقلیت قرار دیتا رہا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک اور بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایشیا پیسیفک خطے کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایزابیل ایراڈون نے بھی کہا ہے کہ حالیہ واقعات سے یہ بات واضح ہے کہ مقامی افراد کے تحفظ کے لیے حکومتی مداخلت ضروری ہے اور تباہی کے اس سلسلے کا توڑا جانا بھی لازمی ہے۔

at/as (AFP)