میرکل کا ’داخاؤ اذیتی کیمپ‘ کا دورہ
21 اگست 2013انگیلا میرکل پہلی جرمن چانسلر ہیں جہنوں نے اپنے دور اقتدار کے دوران اس سابق اذیتی کیمپ کا دورہ کیا ہے۔ اس کیمپ کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والوں کو جرمنی کے لیے ایک مستقل خطرہ قرار دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا، ’’یہ میرے لیے ایک بہت اہم لمحہ ہے، یہاں مارے جانے والوں کی یاد نے مجھے غم اور شرم کے احساس میں مبتلا کردیا ہے۔‘‘
انہوں نے یورپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ ہمیں اپنے جمہوری یورپ میں اس طرح کے دائیں بازو کے نظریات پر نظر رکھنا ہوگی اور انہیں پنپنے سے روکنا ہوگا۔‘‘
اپنے اس خطاب کے بعد میرکل نے سابق اذیتی کیمپ کے مختلف حصوں کا دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے نازی مظالم سے ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر بھی چڑھائی۔
داخاؤ کا یہ اذیتی کیمپ جنوبی جرمن شہر میونخ سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کیمپ کو ہٹلر کے برسر اقتدار آنے کے کچھ عرصے بعد نازیوں کی جانب سے سن 1933 میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ وہاں یہودیوں، ہم جنس پرستوں اور مخالف سیاسی نظریات رکھنے والوں کو قید رکھا جاتا تھا۔ Schutzstaffel یا ایس ایس فورس نے یہاں دو لاکھ سے زائد افراد کو قید رکھا تھا۔ اس اذیتی کیمپ کو اپنے مظالم کی وجہ سے دیگر اذیتی کیمپوں کے لیے ماڈل کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اپریل 1945ء میں امریکا کی جانب سے بند کروائے جانے سے پہلے یہاں کم از کم تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
میرکل کے مخالفین نے ان کے اس دورے پر کڑی تنقید کی ہے۔ مخالف سیاسی رہنماؤں نے انتخابی مہم کے دوران ان کے اس اذیتی کیمپ کے دورے کو ’ بے سود‘ قرار دیا ہے۔ جرمن چانسلر کے مخالفین کا کہنا ہے انتخابی مہم روک کر اس طرح کے اقدامات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اس دورے کے دوران 93 سالہ میکس من ہائمر بھی میرکل کے ہمراہ تھے۔ مان ہائمر اس اذیتی کیمپ سے زندہ بچ نکلنے والوں میں سے ایک ہیں۔ وہ سابق قیدیوں کی ایک کمیٹی کے صدر بھی ہیں۔ ان کے خاندان کے چھ افراد ہولوکاسٹ کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔