میرکل کے حریف سوشل ڈیموکریٹ مارٹن شلُس کون ہیں؟
12 ستمبر 2017مارٹن شلُس کا تعلق وؤرسلن نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس ابھی بھی اسی علاقے میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ سالوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
رواں برس کے آغاز تک شلُس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلُس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے قبل سوشلسٹ پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
میں خنزیر تھا
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ وہ شراب نوشی میں مبتلا ہو گئے اور اپنی پڑھائی بھی مکمل نہیں کی۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس کے لیے بے روز گار بھی رہے۔ شلُس اپنے ماضی پر کھُل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک خنزیر تھا اور میں اچھا طالب علم بھی نہیں تھا‘‘۔
وہ اس دور میں بھی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
جمہوریت خطرے میں
جنوری 2017ء میں مارٹن شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’حالیہ دنوں کے دوران شفافیت اور جمہوریت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب شہریوں کو یہ احساس ہو کہ وہ سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے، ’’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے۔‘‘
واضح موقف
2016ء میں شلُس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلُس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے بارے میں انہوں نے کہا تھا، ’’روس جو کر رہا ہے وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
انتخابی معرکہ
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دے رہا کہ مارٹن شلُس چانسلر انگیلا میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننےکے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔ اب میرکل 52 فیصد اور شلُس 30 فیصد پر ہیں۔ شلُس ابھی بھی بہت پر امید ہیں اور وہ اُن ووٹرز کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ 24 ستمبر کو کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں چانسلر بنوں گا‘‘۔