میونخ سلامتی کانفرنس اور امریکہ
10 فروری 2009امریکہ اور یورپ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لینے کے لئے کی سلامتی کانفرنس کو ایک بیرومیٹر کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ گذشتہ سالوں کے دوران یہی دیکھنے میں آیا کہ امریکہ اپنی من مانی کرتا رہا اور یورپ کو ساتھ لے کرچلنے کی اس نے کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی ۔ لیکن اس سال میونخ میں امریکی نائب صدرجوبیڈن کا خوشگوارطرزعمل ایک مختلف امریکہ کی عکاسی کررہا تھا۔ اوباما نے حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد اورمالیاتی بحران کی شدت کے باوجود اگراپنے نائب کو میونخ کی سلامتی کانفرنس میں بھیجا ہے تو یہ اعتماد بحال کرنے کا ایک ثبوت ہے۔
اپنے خطاب کے ذریعے بائیڈن نے امریکہ کے بارے میں پائے جانے والے آخری شبہات بھی دورکردئیے۔ انہوں نے کہا کہ نئی امریکی حکومت کے نزدیک یورپ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے حلیفوں کی نصیحت پرکان دھرے گی اور تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔
بیڈن نے یقین دلایا کہ امریکہ میں اب قیدیوں کو اذیتیں نہیں پہنچائی جائیں گیں اورملکی سلامتی کے نام پراپنی اقدار کو پاؤں تلے نہیں روندا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ نئی امریکی حکومت ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے، 2015 تک غربت میں نصف حد تک کمی کرنے اور مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے ضروری اقدامات کرے گی۔ اسی طرح دیگر بین الااقوامی بحرانوں کو حل کرنے میں بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرے گی۔
ان سب باتوں کے لئے اسے دوسرے ملکوں کا تعاون درکار ہو گا۔ بش کی طرح اوباما حکومت تنقید کرنے والوں کی دل آزاری نہیں کرے گی اورنہ ہی ایسے ملکوں کو مذاکراتی ساتھیوں کی فہرست سے خارج کرے گی۔ واشنگٹن نے یورپ سے یقیناً اونچی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ افغانستان اورایران دو ایسے تنازعات ہیں جن میں اوباما پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ اپنے حلیفوں سے بھی وہ یہی توقع رکھتے ہیں۔ اگلے چند ماہ تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کردیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سول تعمیرنوکے شعبے پرزیادہ توجہ دی جائےگی۔