'شکایت کے بجائے اپنی ذمہ داری ادا کریں'، بھارتی سپریم کورٹ
6 مئی 2021الیکشن کمیشن آف انڈیا کے متعلق مدراس ہائی کورٹ کے انتہائی سخت ریمارک کے خلاف کمیشن کی جانب سے دائر کردہ عرضی کو نمٹاتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے جمعرات چھ مئی کو کہا کہ میڈیا کا منہ بند کرانے کے بجائے کمیشن کو اپنی آئینی ذمہ داریوں پر توجہ دینی چاہیے۔ مدراس ہائی کورٹ نے ملک میں کورونا کے بحران کے مد نظر اپنے ایک ریمارک میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا یا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے دائر کردہ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا، گو کہ مدراس ہائی کورٹ کا ریمارکس سخت اور نا مناسب تھا اور عدالت کو تحمل سے کام لینا چاہیے تاہم میڈیا کا منہ بند کرنے کی کوشش کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی عرضی میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا”بھارتی آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی صرف عوام تک محدود نہیں ہے بلکہ میڈیا کو بھی اظہار رائے کا حق حاصل ہے اور میڈیا پر روک لگانا سپریم کورٹ کے لیے کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہوگا۔" عدالت نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی کارروائیوں کی رپورٹنگ کرنے سے میڈیا کو روکنے کی جو درخواست دی ہے اس میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا ”پریس کی آزادی بھارتی آئینی کی طرف سے دی گئی اظہار رائے کی آزادی کا خصوصی پہلو ہے۔"
معاملہ کیا تھا؟
بھارت میں کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وبا سے کروڑوں لوگوں کے متاثر ہونے اور لاکھوں ہلاکتوں کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے اسمبلی انتخابات کے دوران ریلیو ں اور جلسوں میں خاطرخواہ سختی نہیں برتنے سے ناراض ہوکر مدراس ہائی کورٹ نے 26اپریل کو اپنے ایک ریمارکس میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف”قتل کا مقدمہ چلایا جانا چاہئے"۔ ملک میں کووڈ کے موجودہ بحران کے لیے یہی”واحد ذمہ دار" ہے کیونکہ اس نے سیاسی جماعتوں کو بلا روک ٹوک انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی۔
مدراس ہائی کورٹ کے ریمارکس سے ناراض الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے بیان سے اس کے وقار کو ٹھیس پہنچا ہے۔ اس نے عدالت عظمی سے درخواست کی تھی کہ عدالتوں میں ججوں کی طرف سے دیے گئے ریمارکس کو شائع یا نشر کرنے کی میڈیا کو اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس سے آئینی ادارے کے امیج پر برا اثر پڑتا ہے۔
سپریم کورٹ کا مشورہ
سپریم کورٹ نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ کا تبصرہ تلخ اور سخت تھا۔اس نے ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ سپریم کورٹ نے تاہم الیکشن کمیشن سے کہا ”بعض چیزوں کو وسیع تر عوامی مفادات میں دیکھا جاتا ہے اور کمیشن کو مناسب جذبے کے ساتھ اس تلخ گھونٹ کو پی جانا چاہئے۔"
سپریم کورٹ نے کہا کہ چونکہ مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے حوالے سے جو ریمارکس دیا تھا وہ عدالتی ریکارڈ میں درج نہیں کیا گیا ہے اس لیے اسے حذف کرنے یا ہٹانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ میڈیا کو عدالتی کارروائیوں کے بارے میں تبصرہ کرنے اور لکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس تکنیکی دنیا میں میڈیا کو روکنا عدلیہ کے لیے اچھا نہیں ہوگا اور وہ بھی ایسے میں جب کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اطلاعات فوراً ہر طرف پھیل جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کے بحران پر قابو پانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتیں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی بھی مسلسل نکتہ چینی کررہی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے آکسیجن کی عدم فراہمی سے مریضوں کی موت کو 'نسل کشی‘قراردیا جبکہ دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ”آپ شترمرغ کی طرح اپنا سر ریت میں چھپا سکتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔"
ایک اور افسوس ناک ریکارڈ
بھارتی وزارت صحت کی طرف سے جمعرات چھ مئی کو جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا کے چار لاکھ بارہ ہزار سے زائدنئے کیسیز سامنے آئے، جو ایک دن میں سب سے زیادہ کیسز کا عالمی ریکارڈ ہے۔
یہ دوسرا موقع ہے جب ایک دن میں چارلاکھ سے زائد نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ 30 اپریل کو چارلاکھ دو ہزار 351 نئے کیسز درج ہوئے تھے۔
گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 3980 اموات کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر دو لاکھ تیس ہزار 168ہوگئی ہے جبکہ متاثرین کی مجموعی تعداد دو کروڑ دس لاکھ 77 ہزار 410 پہنچ گئی ہے۔