1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے افغان صدر دو ستمبر کو ذمہ داریاں سنبھالیں گے، حامد کرزئی

افسر اعوان24 اگست 2014

افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ نئے صدر دو ستمبر کو اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ ان کی طرف سے یہ اعلان ووٹوں کی جانچ پڑتال کے عمل میں سست روی کے باوجود کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Czqa
تصویر: Reuters/Mohammad Ismail

جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ صدارتی امیدواروں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان دھاندلیوں کے الزامات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے شروع کیا گیا تھا۔

کابل میں واقع صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں 2001ء سے مسند اقتدار پر براجمان افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’افغان حکومت دو ستمبر کو نئے صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تقریب منعقد کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔‘‘ حامد کرزئی اور اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ یان کوبِس Jan Kubis کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اس صدارتی بیان کے مطابق تاریخ میں کوئی رد وبدل نہیں ہو گا۔

حامد کرزئی کا بیان اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ یان کوبِس سے ملاقات کے بعد سامنے آیا
حامد کرزئی کا بیان اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ یان کوبِس سے ملاقات کے بعد سامنے آیاتصویر: UNAMA

سابق طے شدہ شیڈول کے مطابق نئے افغان صدر نے دو اگست کو اپنا عہدہ سنبھالنا تھا تاہم جون میں ملک میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے بعد ملکی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اپریل میں ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی امیدوار مقررہ 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر پایا تھا۔ جس کی وجہ سے افغان آئین کے مطابق صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوا جس میں پہلے مرحلے کے دو سر فہرست امیدوار عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی آمنے سامنے تھے۔

انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ ملک دوبارہ خانہ جنگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے امریکی کوششوں سے دونوں امیدواروں کے درمیان ایک ایمرجنسی معاہدہ طے پایا جس کے مطابق تمام آٹھ ملین ووٹوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جانی تھی۔ افغان الیکشن کمیشن اور اقوام متحدہ کے ماہرین کی زیر نگرانی ہونے والی جانچ پڑتال کا یہ عمل 60 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔

امریکا کی جانب سے اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ نئے افغان صدر کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے آئندہ سربراہی اجلاس سے قبل اپنا عہدہ سنبھال لینا چاہیے۔ یہ سمٹ چار ستمبر کو ہونا ہے جس میں رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد اس ملک کے لیے امدادی معاہدہ پر غور وخوض کیا جانا ہے۔

انتخابات کے دوسرے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی آمنے سامنے تھے
انتخابات کے دوسرے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی آمنے سامنے تھےتصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر دو حریف امیدواروں سے میں سے کوئی ایک بھی جانچ پڑتال کے اس عمل سے الگ ہوتا ہے یا پھر اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتیجے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو ملک میں ایک بڑا سیاسی بحران کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ان امیدواروں کے حامیوں کی طرف سے دارالحکومت کابل میں شروع ہونے والے مظاہرے ملکی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔

انتخابی ڈیڈ لاک کے سبب افغانستان میں نسلی بنیادوں پر تقسیم کے ایک بار پھر پیدا ہونے کے خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ اشرف غنی کی زیادہ تر حامی پشتون آبادی ہے جو ملک کے جنوب اور مشرق میں آباد ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ کے حامی تاجک اور ملک کے شمالی حصے سے تعلق رکھنے والے دیگر گروپ ہیں۔