نئے افغان صدر دو ستمبر کو ذمہ داریاں سنبھالیں گے، حامد کرزئی
24 اگست 2014جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ صدارتی امیدواروں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان دھاندلیوں کے الزامات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
کابل میں واقع صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں 2001ء سے مسند اقتدار پر براجمان افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’افغان حکومت دو ستمبر کو نئے صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تقریب منعقد کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔‘‘ حامد کرزئی اور اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ یان کوبِس Jan Kubis کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اس صدارتی بیان کے مطابق تاریخ میں کوئی رد وبدل نہیں ہو گا۔
سابق طے شدہ شیڈول کے مطابق نئے افغان صدر نے دو اگست کو اپنا عہدہ سنبھالنا تھا تاہم جون میں ملک میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے بعد ملکی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اپریل میں ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی امیدوار مقررہ 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر پایا تھا۔ جس کی وجہ سے افغان آئین کے مطابق صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوا جس میں پہلے مرحلے کے دو سر فہرست امیدوار عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی آمنے سامنے تھے۔
انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ ملک دوبارہ خانہ جنگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے امریکی کوششوں سے دونوں امیدواروں کے درمیان ایک ایمرجنسی معاہدہ طے پایا جس کے مطابق تمام آٹھ ملین ووٹوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جانی تھی۔ افغان الیکشن کمیشن اور اقوام متحدہ کے ماہرین کی زیر نگرانی ہونے والی جانچ پڑتال کا یہ عمل 60 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔
امریکا کی جانب سے اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ نئے افغان صدر کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے آئندہ سربراہی اجلاس سے قبل اپنا عہدہ سنبھال لینا چاہیے۔ یہ سمٹ چار ستمبر کو ہونا ہے جس میں رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد اس ملک کے لیے امدادی معاہدہ پر غور وخوض کیا جانا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر دو حریف امیدواروں سے میں سے کوئی ایک بھی جانچ پڑتال کے اس عمل سے الگ ہوتا ہے یا پھر اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتیجے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو ملک میں ایک بڑا سیاسی بحران کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ان امیدواروں کے حامیوں کی طرف سے دارالحکومت کابل میں شروع ہونے والے مظاہرے ملکی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
انتخابی ڈیڈ لاک کے سبب افغانستان میں نسلی بنیادوں پر تقسیم کے ایک بار پھر پیدا ہونے کے خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ اشرف غنی کی زیادہ تر حامی پشتون آبادی ہے جو ملک کے جنوب اور مشرق میں آباد ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ کے حامی تاجک اور ملک کے شمالی حصے سے تعلق رکھنے والے دیگر گروپ ہیں۔