نئے صوبے کا مطالبہ کرنے کی دوڑ میں اب قبائلی عوام بھی شامل
14 جنوری 2012قبائلی علاقوں میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے کارکن اور عہدیدار اپنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ چونکہ قبائلی عوام کا زیادہ تر انحصار صوبہ خیبر پختونخوا پر ہے اور وہاں تمام انتظامی افسران اور سرکاری اہلکار صوبہ ہی تعینات کرتا ہے لہٰذا انہیں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملنی چاہئے تاکہ ان کے منتخب نمائندے قبائلی علاقوں میں جاری ترقیاتی کاموں اور وہاں تعینات سرکاری اہلکاروں کی نگرانی کرسکیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ کا کہنا ہے، ’’ہم قبائلی عوام کو ممبر شپ دینا چاہتے ہیں۔ ان کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ہونی چاہیے تاکہ وہاں تعینات تمام سرکاری اہلکاروں کی نگرانی کی جا سکے، ان کا احتساب کیاجا سکے، تاکہ وہ ترقیاتی عمل کا حصہ بن سکیں۔‘‘
لیکن قبائلی عوام میں بعض لوگ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی اور صوبے میں ادغام کی مخالفت کرتے ہیں۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سہیل خان آفریدی کہتے ہیں، ’’قبائل کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ صوبے میں ضم ہوجائیں، کیونکہ صوبہ اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا تو قبائلی عوام کا کیا خیال رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج قبائلی علاقوں میں ایسے حالات نہیں ہیں کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے۔ اس وقت موزوں یہ ہے کہ فاٹا کو گلگت بلتستان کی طرز پر منتخب کونسل بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں اور انہیں اختیارات دیے جائیں تا کہ وہ قبائلی علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ کر سیکں۔‘‘
اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر سراج الحق نے بھی ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات کرتے ہوئےکیا، ’’پہلے قبائلی علاقوں میں انتخابات ہوں اور جو لوگ منتخب ہوں ان کے مشورے سے سارے معاملات طے کیے جائیں۔ اگر باہر سے ان پر کوئی فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام کی جانب سے رد عمل سامنے آئے گا۔ قبائلی علاقوں کے عوام کا اپنا مزاج ہے اور رسوم و رواج بھی الگ ہیں۔ وہ ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ پسماندہ ہیں انہیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ان کے تمام مسائل حل کرسکے اور انہیں دیگر شہریوں کے برابر لایا جاسکے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سربراہ اسد قیصر بھی قبائلی عوام کو یہ اختیار دینے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’قبائل اپنے تمام مسائل جرگوں اور باہمی مشاورت سے حل کرتے ہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ ان پر اسلام آباد سے کوئی رائے مسلط کرنے کی بجائے انہیں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ جرگہ قبائلی علاقوں کا مضبوط سسٹم ہے اور اسی جرگے کے ذریعے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہاں کے عوام کے حق میں کونسا راستہ بہتر ہے۔‘‘
دوسری جانب حلیم خان آفریدی کا کہنا ہے، ’’ہمیں انتظامی طور پر الگ صوبہ بنانے کا حق دیا جائے کیونکہ ہمارے پاس اس کے لیے تمام تر جواز موجود ہیں۔‘‘
پاکستان کے قبائلی علاقے پہلے افغان مہاجرین کی وجہ سے روزگار اور بدامنی کا سامنا کرتے رہے ہیں جبکہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کو الگ صوبے یا پھر خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی تب ہی دی جاسکے گی، جب یہاں امن قائم ہوگا۔
رپورٹ: فریداللہ خان
ادارت : عدنان اسحاق