ناامید بنگلہ دیشی باپ نے ’ٹری گرل‘ بیٹی کا علاج رکوا دیا
27 مارچ 2017بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے پیر ستائیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس مریضہ کی عمر دس سال ہے اور نام شاہانہ خاتون۔ شاہانہ کے والد نے آج پیر کے روز اے ایف پی کے بتایا کہ اسے خدشہ ہے کہ اس کی بیٹی کبھی بھی صحت یاب نہیں ہو سکے گی اور اسی لیے اب اس نے شاہانہ کا علاج روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ شاہانہ خاتون کا علاج ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال میں کیا جا رہا تھا، جہاں سے وہ اب واپس اپنے گھر جا چکی ہے۔
یہ بنگلہ دیشی لڑکی دنیا بھر میں جلد کی انتہائی کم نظر آنے والی جس بیماری کا شکار ہے، اسے طبی اصطلاح میں ’ایپی ڈرمو ڈسپلازیا ویروسی فورمیزا‘ (epidermodysplasia verruciformisa) اور عرف عام میں ’ٹری مین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کے کسی بھی مریض کے جسم پر دیکھنے میں درختوں کی خشک چھال کی طرح کے ایسے جلدی حصے جگہ جگہ اگنے شروع ہو جاتے ہیں، جن کا بظاہر کوئی علاج نہیں ہوتا۔
شاہانہ خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شاید پوری دنیا میں اس بیماری کی واحد مریضہ ہے کیونکہ اب تک یہ مرض چند مردوں میں تو دیکھنے میں آیا ہے لیکن خواتین یا لڑکیوں میں اس کی شاہانہ خاتون سے پہلے کوئی مثال نہیں دیکھی گئی تھی۔ بنگلہ دیش ہی میں اس مرض کا شکار ایک مرد شہری بھی کافی عرصے سے خبروں کا موضوع رہا ہے۔
شاہانہ خاتون کے والد محمد شاہجہان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کی بیٹی کا گزشتہ مہینے ڈاکٹروں نے ایک آپریشن تو کیا تھا، جس دوران اس کے جسم سے مردہ خلیات والے درختوں کی چھال جیسے کچھ حصے کاٹ کر علیحدہ کر دیے گئے تھے تاہم اس سے شاہانہ کی حالت مزید خراب ہو گئی تھی۔
محمد شاہجہان نے بتایا، ’’میری بیٹی کی آپریشن کے بعد جسمانی حالت زیادہ خراب اور مزید تکلیف دہ ہو گئی تھی، جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ آئندہ اس کے ایسے کوئی آپریشن نہ کیے جائیں۔‘‘
شاہانہ کے والد کے مطابق ڈاکٹروں نے فروری میں آپریشن کر کے ان کی بیٹی کے جسم سے مردہ جلد والے جو بیرونی حصے کاٹے تھے، ان کی جگہ پر کچھ ہی عرصے بعد ویسے ہی چند حصے پہلے سے زیادہ سخت اور مضبوطی کے ساتھ دوبارہ پیدا ہو گئے تھے۔
ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال کے ماہرین کے مطابق انہوں نے شاہانہ کا ایک آپریشن کیا تھا اور اسے ایسے آٹھ سے لے کر دس تک مزید آپریشنوں کی ضرورت تھی۔ لیکن اس کے والد محمد شاہجہان نے، جو ایک مزدور ہے، یہ کہتے ہوئے اپنی بیٹی کا علاج رکوا دیا کہ شاہانہ کو اس علاج سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔
طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد نصف درجن سے بھی کم ہے، جن میں ایک 27 سالہ بنگلہ دیشی شہری باجندار بھی شامل ہے۔ باجندار کے ڈاکٹر اب تک اس کے کم از کم بھی 21 آپریشن کر چکے ہیں۔ اس دوران سرجنوں نے اس کے جسم سے مردہ جلد والے درختوں کی چھال نما جو حصے کاٹ کر علیحدہ کر دیے، ان میں سے ہر ایک کا وزن اوسطاﹰ پانچ پانچ کلو یا گیارہ گیارہ پاؤنڈ بنتا تھا۔
باجندار کے معالجین کے مطابق اگر اس کا علاج مکمل ہو گیا تو وہ اس بیماری کا شکار ہونے والا دنیا کا وہ پہلا مریض ہو گیا، جو مکمل طور پر دوبارہ صحت یاب ہوا ہو۔
دوسری طرف شاہانہ کا ڈھاکا میں علاج اگرچہ مفت کیا جا رہا تھا، تاہم اس کا والد ایک مزدور ہے، جسے مستقل مالی پریشانیوں کا بھی سامنا ہے۔ شاہانہ کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ محمد شاہجہان نے کہا، ’’میرا خاندان بس میری یہی بیٹی ہے۔ میں ہر وقت اس کے پاس رہنے پر مجبور ہونے کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں کر سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی صحت یاب نہ ہو سکے۔ لیکن میں یہ بھی نہیں دیکھ سکتا کہ وہ مہینوں تک ہر روز ہسپتال میں اپنے بستر پر خاموش اور اداس بیٹھی رہے۔‘‘