ناروے میں حملے: ملزم کے اہداف اور بھی تھے
31 جولائی 2011دارالحکومت اوسلو سے موصولہ رپورٹوں میں پولیس پراسیکیوٹر کے آج ہفتے کو دیے گئے بیانات کا حوالہ دیتے خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے پہلے اوسلو میں ملکی حکومت کے دفاتر والے شہر کے مرکزی حصے میں ایک کار بم دھماکے اور پھر شہر کے نواح میں ایک جزیرے پر ایک یوتھ کیمپ کے شرکاء پر اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے 77 افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے اس ملزم نے اوسلو میں شاہی محل کی عمارت اور حکمران لیبر پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کا ارادہ بھی کر رکھا تھا۔
پولیس پراسیکیوٹر پال فریڈرک کرابی نے اوسلو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بتیس سالہ ملزم آندرس بیہرنگ بریوک نے دوران تفتیش پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے حملوں کے لیے کئی دیگر اہداف میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ پال فریڈرک کرابی نے کہا کہ اس ملزم نے، جو اپنے ہاتھوں اس دہرے حملے میں بیسیوں افراد کے قتل کا اعتراف کر چکا ہے مگر خود کو مجرم تصور کرنے سے انکاری ہے، جن دوسرے اہم مقامات کو قتل وغارت کا نشانہ بنانے کا سوچا تھا، وہ سارے کے سارے ایسے اہداف تھے، جو کسی بھی دہشت گرد کی اولین ترجیح ہو سکتے تھے۔
ناروے کے ایک کثیر الاشاعت روزنامے ’ویردنز گانگ‘ نے اپنی آج ہفتے کی اشاعت میں لکھا ہے کہ آندرس بیہرنگ بریوک نے اوسلو میں شاہی خاندان کے زیر استعمال محل پر حملہ کرنے کا اس لیے سوچا تھا کہ وہ اس محل اور وہاں رہنے والے شاہی خاندان کی علامتی حیثیت کو نقصان پہنچا سکے۔
اس روزنامے کے مطابق یہ ملزم اپنے دیگر اہداف کا نشانہ بنانے کے پروگرام پر اس لیے عملدرآمد نہ کر سکا کہ اس کے لیے اکیلے ایک ہی دن میں ایک کے بعد دوسرے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانا ممکن نہیں تھا۔ ’ویردنز گانگ‘ نامی اس اخبار کے مطابق آندرس بیہرنگ بریوک نے وزیر اعظم شٹولٹن برگ کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کا اس لیے سوچا تھا کہ وہ اس سیاسی جماعت کی طرف سے ناروے کو ایک کثیر الثقافتی معاشرہ بنانے کی کوششوں کے سخت خلاف تھا۔
اس وقت عدالتی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں زیر تفتیش ملزم بریوک کے مطابق وہ یورپ کو اسلام اور دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے نمائندہ تارکین وطن کی یلغار سے بچانا چاہتا تھا اور اسے ہر اس شخص سے نفرت تھی، جو جمہوریت کا حامی تھا۔ یہ کہ دائیں بازو کے اس سفید فام مسیحی انتہا پسند حملہ آور نے بائیس جولائی جمعے کی شام دیگر اہداف پر حملوں کا پروگرام بھی بنا رکھا تھا، اس کی تصدیق اس ملزم کے وکیل نے بھی کی ہے۔ گائر لِپےشٹاڈ نامی اس وکیل کے بقول بریوک نے اس جمعے کی شام مختلف نوعیت کی شدت والے اپنے چند دیگر منصوبوں کے بارے میں بھی سوچ رکھا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ