شبانہ رحمان پاکستانی نژاد نارویجن تھی۔ اس نے کالم نگاری، اسٹینڈ اپ کامیڈی، سوشل ایکٹوزم، ٹیلی وژن پر مزاحیہ خاکوں، طنزیہ تحریروں اور پبلک میں بے باک ہو کر بات کہہ دینے میں اپنا نام بنایا، اور یہ نام اتنا کمایا کہ ناروے نے شبانہ رحمان کو قومی اعزاز کے ساتھ الوادع کیا ہے۔ ایک اسٹینڈ اپ کامیڈین شبانہ جس کا تعلق اقلیتی امیگرنٹ گروہ سے تھا وہ ناروے کے لیے اتنی اہم کیسے بن گئی کہ ناروے کے کراؤن پرنس ہاکون نے سرکاری عمارت میں ہونے والی تقریب ِ جنازہ میں شرکت کی؟
اس سوال کے کئی جواب ہیں کیونکہ شبانہ رحمان ناروے میں مقیم پاکستانی پس منظر رکھنے والی کمیونٹی کے ایک لیے ایک مشکل سوال تھی اور شاید ہمیشہ رہیں۔ وہ بیک وقت ایک میٹھی اور کڑوی گولی تھیں، جنہیں نگلنا مشکل تھا مگر شبانہ کے ہونے اور اس کے کام کی چھاپ سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ شبانہ رحمان کو ناروے سے جتنی محبت ملی اس نے اتنا ہی نفرت کا سامنا کیا، اسے اپنے بے دھڑک انداز سے جتنی شہرت ملی اسی وجہ سے اس نے اتنی ہی تنقید بھی سمیٹی۔
شبانہ پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئی اور پیدائش کے فوراً بعد ہی والدین کے ہمراہ ناروے چلی گئی۔ ستر کی دہائی میں ناروے کو اپنی انڈسٹری اور انفراسٹرکچر کے لیے مین پاور کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت پاکستانی تارکین وطن محنت کشوں نے خوب پوری کی۔ شبانہ بھی ایسی ہی کمیونٹی کا حصہ تھی۔
شبانہ نے نوجوانی سے ہی اپنی ایک الگ راہ اختیار کی جسے نوے کی دہائی میں شاید سوچنا بھی محال تھا۔ ان کی تنقید کا سب سے پہلا شکار پدر شاہی معاشرتی اقدار تھیں۔ جن پر ناروے میں مقیم مسلم بالخصوص پاکستانی کمیونٹی بڑے چاؤ سے عمل کرتی تھی۔
پاکستانی برادری ان دنوں ناروے میں قدم جمانے کے دور سے گزر رہی تھی۔ اس کمیونٹی کو نارویجن معاشرے سے کئی طرح کے خطرات تھے، اس کمیونٹی نے اپنی لڑکیوں کی شادیاں پاکستان میں موجود رشتے داروں سے کرائیں۔سخت سماجی کنٹرول رکھا، بعض مواقع پہ گھریلو تشدد کے واقعات ہوئے، عورت کی اعلیٰ تعلیم کو کچھ نے بخوشی اور کچھ نے بمشکل تسلیم کیا۔ شبانہ نے ایسے معاشرے کے دوہرے معیار پہ سوال اٹھائے۔
جب ایک لڑکی پدر شاہانہ نظام کے خلاف بولے، جب وہ کھل کر کہے کہ عورت کو دبانے کے لیے مذہب کا استعمال بند کرو، جب وہ تارکین وطن کمیونٹی میں سے ہی ایک ہو اور اپنے ہی لوگوں کو آڑھے ہاتھوں لے تو پھر کون ہو گا جو اسے پسند کرے گا۔ شبانہ بیک وقت کئی لڑائیاں لڑ رہی تھی۔ اس کے نشری مواد میں بظاہر معمولی سی بات پر بھی مزاحیہ انداز میں تنقید ملتی ہے لیکن اس تنقید نے ناروے کی امیگرنٹ مسلم کمیونٹی کی لڑکیوں کو ایک راہ دکھائی۔
آج کے ناروے میں پاکستانی مسلم کمیونٹی میں شبانہ جیسی بے خوف نہ سہی مگر اسی کی طرز پہ سوچنے والی کئی لڑکیاں مل جائیں گی مگر جب شبانہ نے ان معاملات پر آواز بلند کی تھی تب وہ اکیلی تھیں۔اپنی طرز کی واحد کامیڈین جو اپنے اندر کے کھوکھلے پن کو ہنسی میں اڑاتی تھی۔
اگرچہ شبانہ کی باتوں کا لبِ لباب وہی تھا جو کہ کوئی بھی عام ترقی پسند مسلمان پاکستانی لڑکی سوچتی ہو گی مگر اس کا بے دھڑک، بے باک انداز اس کے پیغام کو دھندلا گیا۔ شبانہ رحمان نے ایک تقریب میں ناروے کے متنازعہ عراقی نژاد اسلامک شخصیت مُلا کریکر کو اپنی گود میں اٹھا لیا جس کی مختصر وڈیوز بھی موجود ہیں۔ شبانہ رحمان کو اس پبلک اسٹنٹ کے بعد دھمکیاں ملیں تو وہ اور کھل کر سامنے آئی، اس نے ایک تقریب میں اسٹیج پہ کھڑے ہو کر اپنا زیر جامہ اتار دیا،اگلے دن میڈیا پہ اس کے جسم کا نچلا حصہ نشر تھا، اسے اپنی کمیونٹی سے بڑی لعن طعن ہوئی تو اس نے پورے جسم پہ ناروے کا جھنڈا پینٹ کروایا اور ایک تقریب میں برہنہ ہو کر کیمروں کے سامنے مسکرانے لگی۔
شبانہ رحمان کے ان پبلک اسٹنٹ کو نارویجن حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، وہ میڈیا کی گرما گرم خبر تھی جس کی شہرت یا بدنامی کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان پاکستانی نژاد نارویجن اور اس کا پیغام اس کے ساتھ چلتا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب شبانہ رحمان کی اس قدر بے باکی کے باعث ناروے کی پاکستانی کمیونٹی اس سے لاتعلق ہو گئی۔ اسے اسلام مخالف کہا جانے لگا جبکہ کچھ کو اس سے نفرت ہونے لگی۔
اس نفرت یا لاتعلقی کا اندازہ شبانہ کی زندگی میں شاید اس طرح نہ ہوتا جیسے اس کی موت کے بعد عیاں ہوا۔ سوشل میڈیا پر شبانہ رحمان کی موت کے بعد پاکستانی نارویجنز اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ شبانہ رحمان کی آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ بعض کے مطابق شبانہ کی موت پر اظہار ِافسوس کرنا بھی گناہ ہے۔ بعض کو شبانہ رحمان کا مسلم اقدار اور مشرقی روایات کے خلاف بولنا سب پیسے کا کھیل نظر آتا ہے جس کے لالچ میں شاید شبانہ نے یہ راستہ چُنا، چند ایک کی رائے ہے کہ شبانہ صرف شہرت کے لیے ہر حد پار کر گئی۔
شبانہ رحمان کی زندگی ایک رولر کوسٹر کی طرح تیز، خطرناک مگر خطرے سے بے خوف گزری۔ اس کی شخصیت ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کی وہ پہچان ہے جسے یہ کمیونٹی کبھی بھی مکمل طور پر اپنا نہیں سکی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔