ناروے کی دستاویزی فلم، بنگلہ دیشی بینک پر دباؤ
7 جنوری 2011بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ ابوالمال عبدالمحیط نے 2006ء میں امن کا نوبل انعام پانے والے محمد یونس کے قائم کردہ اِس بینک کے خلاف الزامات کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ناروے ٹی وی کی دستاویزی فلم کے مطابق نوے کے عشرے میں ناروے کی ایک امدادی تنظیم کی طرف سے فراہم کردہ فنڈ ٹیکس بچانے کے لئے غیر قانونی طور پر ایک سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کئے جاتے رہے۔
محمد یونس اب تک ملک کے غریب طبقے بالخصوص خواتین کو غربت کے چنگل سے نکالنے اور کوئی ذاتی کاروبار شروع کرنے کے لیے دَس ارب ڈالر تک کے قرضے فراہم کر چکے ہیں تاہم اِس دستاویزی فلم کے نتیجے میں اُنہیں بنگلہ دیش کے اندر بھی اور بیرونِ ملک بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بنگلہ دیشی سربراہِ حکومت شیخ حسینہ نے محمد یونس پر ٹیکس بچانے کے لئے ’داؤ‘ کھیلنے کا الزام عائد کیا تھا۔
بنگلہ دیشی وزیر خزانہ عبدالمحیط نے جمعرات کی شام خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ’ملک کے اندر اور باہر اتنے بڑے پیمانے پر جاری بحث اِس بات کی متقاضی ہے کہ اِس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک سرکاری کمیٹی مقرر کی جائے‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’اِن تحقیقات کے بارے میں سرِ دست کچھ نہیں کہا جا سکتا، یہ تحقیقات کب ہوں گی، اِس بات کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا‘۔
ساتھ ہی بنگلہ دیشی وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کا ’چھوٹے قرضوں کے شعبے میں جاری سرگرمیوں کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرنے یا گرامین بینک کو قومی تحویل میں لینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘۔
یہ الزامات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں چھوٹے قرضوں کا شعبہ زیادہ سے زیادہ تنقید کی زَد میں ہے اور وہاں کے سیاستدان اِن بینکاروں پر غریبوں کا استحصال کرنے اور اُنہیں استعمال کرتے ہوئے منافع کمانے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس ہی ناروے کی حکومت نے کہا تھا کہ گرامین کے خلاف الزامات کی تحقیات کی گئی ہیں اور فنڈز کے غلط استعمال یا بدعنوانی کی سرگرمیوں کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ خود محمد یونس نے کہا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیات کا خیر مقدم کریں گے تاکہ ’سچائی جلد از جلد بنگلہ دیش کے عوام کے سامنے آ سکے‘۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر