ناپیدگی کے خطرے سے دوچار جانوروں کا ’اسٹیم سیل زُو‘
5 ستمبر 2011اس تحقیق کے معاون سربراہ اور سان ڈیاگو چڑیا گھر کے ڈائریکٹر برائے جینیٹکس اولیور رائیڈر Oliver Ryder کے مطابق : ’’ ناپیدگی سے بچانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسی نسلوں کو محفوظ کر لیا جائے، لیکن یہ طریقہ ہر وقت کام نہیں کرتا۔‘‘ رائیڈر مزید کہتے ہیں: ’’ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کی بدولت کسی حد تک امید پیدا ہوگئی ہے کہ ایسے جانور بھلے مکمل طور پر غائب ہی کیوں نہ ہوجائیں، وہ ناپید نہیں ہوں گے۔‘‘
ابتدائی طور پر جن دو جانوروں کے اسٹیم سیل محفوظ کیے گئے ہیں ان میں شمالی سفید گینڈا بھی شامل ہے۔ اس نسل کے اب صرف سات گینڈے موجود ہیں اور ان تمام کو محفوظ علاقوں میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے دو گینڈے امریکہ میں سان ڈیاگو کے چڑیا گھر میں موجود ہیں۔
سفید گینڈے کے علاوہ جس دوسرے جانور کے جسم سے اسٹیم سیل حاصل کیے گئے ہیں وہ جینیاتی حوالے سے انسان کے قریب بندروں کی ایک نسل ’ڈرل‘ ہے۔ محفوظ مقامات پر رکھے گئے ڈرل نسل کے بندروں میں سے اکثر میں ذیابیطس کا مرض پایا جاتا ہے۔ سائنسدان انسانوں میں بھی ذیابیطس کے خاتمےکے لیے اسٹیم سیل پر مشتمل علاج کی کوشش کر رہے ہیں۔
اولیور رائیڈر کی ٹیم 2006ء سے اب تک جانوروں کی 800 سے زائد نسلوں کی جلد سے اسٹیم سیل کے نمونے جمع کر چکی ہے۔ ان اسٹیم سیلوں کو محفوظ بنانے کے لیے جما کر رکھا گیا ہے۔ ان جمائے گئے نمونوں کو Frozen Zoo یعنی ’جمائے گئے چڑیا گھر‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق انسانوں میں بیماریوں کے علاج کے علاوہ اگر اسٹیم سیلز میں جانوروں کی نسل آگے بڑھانے کی صلاحیت پیدا کر لی جاتی ہے تو یہ کامیابی ناپیدگی کے خطرات میں گھری جانوروں نسلوں کو بچانے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
محققین کے مطابق اگر مستقبل میں اسٹیم سیلز کو نر کے تولیدی خلیوں یعنی سپرم سیلز میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی جاتی ہے تو سائنسدان لمبے عرصے قبل ہلاک ہونے والے جانوروں کی جلد کے محفوظ کردہ اسٹیم سیل سے ملا کر ان جانوروں کی نسل پیدا کر سکتے ہیں۔
مصنوعی طریقے سے تیار کردہ اسٹیم سیلز کو رحم مادر کے باہر لیبارٹری میں انڈے سے ملا کر اسے بار آور یعنی فرٹیلائز کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈا اور سپرم دونوں کو بھی مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے کے بعد انہیں ملا کر بارآور شدہ انڈے کو کسی مادہ جانور کے رحم میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح معدوم شدہ جانور کی نسل دوبارہ سے پیدا کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک