نسل پرستی: جرمنی کیا مناسب اقدامات نہیں کر رہا؟
4 مئی 2015انسانی حقوق کے شعبے کے ماہرین نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں غیر ملکیوں سے تعصب اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے وسیع اور جامع منصوبہ بندی کرے۔ جرمن ادارے برائے انسانی حقوق کے مطابق اسلام مخالف تنظیم پیگیڈا کے مظاہروں سے یہ مسئلہ مزید نمایاں ہوا ہے۔
’’نسل پرستی صرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے میں موجود ہے۔‘‘ جرمن ادارے کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب پانچ اور چھ مئی کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق میں اس سلسلے میں پوچھ گچھ کی جانی ہے۔ اس موقع پر برلن حکومت کے نمائندوں کو اقوام متحدہ کے غیر جانبدار ماہرین کی ایک کمیٹی کے تند و تیز سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ اس دوران جرمن حکام سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے نسل پرستی کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
1965ء میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے کنوینشن پر اتفاق رائے کے بعد سے جرمن حکومت اس حوالے سے ہر سال اپنی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کرتی ہے اور اس ہی کے متوازی جرمنی میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے ادارے اور تنظیمں نسل پرستی کے خلاف کیے جانے والے حکومتی اقدامات میں رہ جانی کوتاہیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔
انسانی حقوق کے جرمن ادارے کی پیٹرا فولمر اوٹو کے مطابق، ’’ہمیں کمیٹی کی جانب سے واضح اشاروں کی امید ہے اور اس طرح جرمنی میں بالآخر یہ موضوع سیاسی سطح پر اہمیت اختیار کر جائے گا۔‘‘
اس شعبے کے ایک ماہر ہینڈرک کریمر کہتے ہیں، ’’نسلی تعصب کی تشریح کے حوالے سے سیاستدان، سرکاری محکمے اور عدالتیں تنگ نظر ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ جرمنی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپ نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ ’این ایس یو‘ کے خلاف کیے جانے والے تفتیشی عمل میں غلطیاں اس کا ایک واضح ثبوت ہیں۔ اس تفتیش نے سلامتی کے جرمن اداروں کے مابین تعاون کے فقدان اور نسل پرستی کے خلاف ایک منظم نظام کی غیر موجودگی کو نمایاں کیا تھا۔
جنیوا میں انسانی حقوق کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے جرمن وفد میں وزارت انصاف اور وزارت داخلہ کے نمائندوں کے علاوہ پولیس اور دیگر سرکاری محمکوں کے افسران بھی شامل ہیں۔ چھ مئی تک جاری رہنے والے سوالات اور جوابات کے اس سلسلے کے ایک روز بعد اقوام متحدہ کی جانب سے جرمن حکومت کے لیے تجاویز جاری کی جائیں گی۔