نسلی تعصب کے واقعے میں بھارتی نوجوان ہلاک
1 فروری 2014بھارت میں اس طالب علم کی ہلاکت کے بعد نسلی امتیاز کے موضوع پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ بھارت کے شمال مشرق میں رہنے والے بہت سے افراد اپنے چہرے کے خدو خال کی وجہ سے چین یا میانمار کے شہری دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں ملک کے دیگر حصوں میں اکثر نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ بیس سالہ نیڈو تانیا کی ہلاکت بھی نسلی تعصب کا ہی نتیجہ ہے۔
پولیس نے اس واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں دو دکانداروں کو گرفتار کیا ہے۔ حکام کے مطابق ان دکانداروں نے بیس سالہ نیڈو تانیا کے چہرے کے خدو خال کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے چند گھنٹے بعد وہ ہسپتال میں اپنے بستر پر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ تانیا ریاست ہما چل پردیش کی اسمبلی کے ایک رکن کا بیٹا تھا۔اس کے والد کا تعلق حکمران جماعت کانگریس پارٹی سے ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوبی حصے لجپت نگر میں چند سو افراد نے اس واقعے کے خلاف متعلقہ تھانے اور اس مقام پراحتجاج کیا، جہاں نیڈو تانیا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مظاہرین میں طالب علموں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ مظاہرین ہلاک ہونے والے طالب علم کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تفتیش کاروں نے بتایا کہ تانیا جالندھر میں زیر تعلیم تھا اور ان دنوں چھٹیاں گزارنے کے لیے نئی دہلی آیا ہوا تھا۔ اس کی ہلاکت کی اصل وجہ جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کرایا گیا ہے، جس کی رپورٹ ابھی جاری نہیں کی گئی ہے۔ سماجی ویب سائٹ فیس بک پر نیڈو تانیا کے لیے ایک صفحہ بھی بنایا گیا ہے اور آج ہفتے کے روز تک اسے لائیک کرنے والوں کی تعداد 14 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی اس سلسلے میں تفتیش کاروں کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ کیجریوال نے اپنے ایک بیان میں اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ’’ایسے عناصر کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے، جو معاشرے میں نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ملک کے کسی خاص حصے کے لوگوں سے امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ سر عام تشدد کا یہ واقعہ یہ واضح کرتا ہے کہ شہر کے قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ کیجریوال اور ان کی جماعت ’عام آدمی پارٹی‘ نئی دہلی پولیس کے اختیارات کی وفاقی حکومت سے صوبائی حکومت کو منتقلی کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ وزارت داخلہ نے بھی پولیس سے اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔