1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسلی فسادات کا ردِ عمل: بنگلور سے ہزاروں افراد کی نقل مکانی

17 اگست 2012

بھارتی ریاست آسام اور ہمسایہ ملک میانمار میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات پر ردِ عمل کے خوف میں بھارت کے جنوبی شہر بنگلور سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15rXH
تصویر: Reuters

بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں ویک اینڈ پر مسلمانوں نے اپنے ہم مذہب افراد کے خلاف تشدد پر مظاہرہ کیا، جس کے بعد فسادات میں دو افراد ہلاک اور 55 زخمی ہوئے۔ ان فسادات میں تقریباﹰ دس ہزار افراد شامل تھے۔

شمال مشرقی ریاست آسام میں مقامی آبادی اور ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کے مسلمان آباد کاروں کے درمیان حالیہ فسادات پر بھارتی مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان فسادات میں 75 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ چار لاکھ سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

میانمار کے صوبے راکھین میں بھی بدھ مت کے پیروکاروں اور اقلیتی مسلمان کمیونٹی کے درمیان فسادات کے نتیجے میں کم از کم 80 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں افراد متاثرہ علاقوں سے فرار ہوئے۔

مبصرین کے مطابق ان پرتشدد کارروائیوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو ناراض کیا اور بھارت میں بھی کشیدہ صورتِ حال پیدا ہوئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بالخصوص سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔

Minister Tarun Gogoi
آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئیتصویر: UNI

اس دوران بنگلور کے قریب ایک علاقے میں ایک تبتی طالب علم پر چاقو سے کیے گئے حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور خوف و ہراس مزید پھیل گیا۔

بنگلور میں شمال مشرقی ریاست منی پور کے طلبا کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ کے رکن وِویک کمار کا کہنا ہے: ’’اس وقت شمال مشرقی (علاقوں کے) لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے کی دھمکیاں ملی ہیں، ان میں سے بعض کو مختلف علاقوں میں مارا پیٹا گیا ہے۔‘‘

ریلوے حکام نے بدھ کی شب دو اضافی ٹرینوں کا انتظام کیا، جس کا مقصد تقریباﹰ سات ہزار افراد کو آسام کے دو روزہ سفر کی سہولت دینا تھا۔

وزارتِ داخلہ کے اہلکار آر کے سنگھ نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ پرامن رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی علاقوں کے لوگ ملک میں کہیں بھی محفوظ ہیں۔ انہوں نے افواہوں کو خوف و ہراس کی فضا کا ذمہ دار قرار دیا۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی کا کہنا ہے سوشل میڈیا اور موبائل فون پر پیغامات کے ذریعے افواہیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے: ’’نئی ٹیکنالوجی افواہیں پھیلانے کی ذمہ دار ہے۔ یہ تیز تر ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے۔‘‘

ng/shs (Reuters, AFP)