نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید کا خاتمہ بھی ترجیح ہونا چاہیے
6 جون 2019نسوانی جنسی اعضاء کی اس قطع برید کو انگریزی میں Female Genital Mutilation یا FGM کہتے ہیں اور دنیا بھر میں اس ظالمانہ رواج کے خلاف سرگرم کارکنوں اور سرکردہ تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بربریت کی روک تھام کو ویسی ہی عالمی ترجیح بنایا جانا چاہیے، جیسی ایڈز اور ایچ آئی وی وائرس کے خلاف جنگ کو بنایا گیا ہے۔
اس بارے میں خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں کینیڈا کے شہر وینکوور سے جمعرات چھ جون کو لکھا کہ یہ عمل ایک ایسی قدیم روایت ہے، جس کے تحت لڑکیوں اور خواتین کے نازک جنسی اعضاء کے بیرونی حصے جزوی یا مکمل طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔
یہ طرز عمل متاثرہ خواتین کے لیے عمر بھر جاری رہنے والی شدید نوعیت کی طبی مشکلات کا سبب بنتا ہے، جو ان کی نفسیاتی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پوری دنیا میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود ہی نہیں کہ ’نسوانی ختنے‘ کا شکار ہونے والے خواتین میں سے بعد میں کتنی، اسی روایت کے طبی اثرات کے نتیجے میں، یا تو بہت زیادہ خون بہہ جانے سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں یا پھر بعد میں اپنے بچوں کو جنم دیتے ہوئے انتقال کر جاتی ہیں۔ خواتین کی ایسی ہلاکتوں میں بھی اس ’نسوانی ختنے‘ کے اثرات کا عمل دخل واضح اور مصدقہ ہوتا ہے۔
بیس کروڑ متاثرہ خواتین اور لڑکیاں
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی تعداد کا تخمینہ 200 ملین لگایا جاتا ہے۔ لیکن کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیس کروڑ کی یہ تعداد اپنی جگہ انتہائی باعث افسوس ہونے کے باوجود اصل سے بہت ہی کم ہے۔
اقوام متحدہ کے یہ اندازے صرف 30 ممالک سے حاصل شدہ ڈیٹا پر مشتمل ہیں، جن میں اکثریت افریقی ریاستوں کی ہے۔ کینیڈا میں ہونے والی ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس ویمن ڈلیور (Women Deliver) کے شرکاء کے مطابق اس بات کے واضح اور مطالعاتی شواہد موجود ہیں کہ ایف جی ایم کہلانے والی اس انسانیت سوز روایت پر دنیا کے 30 سے بھی کہیں زیادہ ممالک میں آج تک عمل کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں امریکا میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم Equality Now کی ڈائریکٹر شیلبی کوآسٹ کے مطابق، ’’ہمیں ہر روز ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ دنیا کے مزید ایسے کئی خطے ہیں، جہاں اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔‘‘
یہ خطے عام طور پر ترقی پذیر ممالک کے ایسے علاقے ہوتے ہیں جہاں روایت پسندی، قدامت پرستی اور معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری اس حد تک ہوتی ہے کہ وہ بلاشبہ پدرشاہی معاشرے ہوتے ہیں اور ان میں خواتین کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک اسی پدر شاہانہ معاشرتی سوچ کے تحت کیا جاتا ہے۔
متاثرین میں پاکستانی اور بھارتی خواتین بھی شامل
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق عالمی ادارے نے اس موضوع پر اب تک جو ڈیٹا جمع کیا ہے، اس میں وہ ممالک شامل ہی نہیں جہاں یہ روایت پائی تو جاتی ہے لیکن جہاں اس کی موجودگی سخت گیر سماجی رویوں اور روایات کے باعث ابھی تک باقاعدہ ریکارڈ نہیں کی جاتی۔ اس سلسلے میں ماہرین جن ممالک کے نام لیتے ہیں، ان میں جارجیا، روس، عمان، سری لنکا، ایران، بھارت، پاکستان، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں۔
امریکا میں سفید فام میسحی خواتین بھی اسی بربریت کا شکار
نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے جنسی اعضاء کی اس قطع برید کی روایت صرف ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں پائی جاتی۔ اسی سال امریکا میں ایک سفید فام مسیحی خاتون کی داستان کا منظر عام پر آنا بھی ہر کسی کے لیے ایک بڑے دھچکے کا سبب بنا۔ اس خاتون نے تصدیق کر دی تھی کہ اس کا بھی بچپن میں ’نسوانی ختنہ‘ کر دیا گیا تھا۔
امریکی ریاست کینٹکی کی رہنے والی اس خاتون کے اس انکشاف کے بعد کئی مسیحی حلقوں نے اس انکشاف کی مذمت بھی کی تھی جبکہ بہت سے دیگر حلقوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ ظالمانہ عمل جہاں کہیں بھی ہوتا ہے، اس کی ہر جگہ پر مکمل روک تھام کی جانا چاہیے۔
ایڈز کے مریضوں اور نسوانی ختنے کی متاثرین کا موازنہ
’نسوانی ختنوں‘ کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سرگرم برطانیہ کی ایک تنظیم ’اورچِڈ‘ کے تخمینوں کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد تقریباﹰ 37 ملین بنتی ہے اور سن 2017ء میں ایڈز کے خلاف جنگ کے لیے تقریباﹰ 20 بلین ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے برعکس ایف جی ایم کے خلاف عالمی سطح پر مہیا کردہ رقوم کی مالیت 2018ء سے لے کر 2021ء تک کے عرصے کے لیے صرف 200 ملین ڈالر بنتی ہے۔
اس تنظیم نے دنیا کی کئی دیگر تنظیموں کی طرح مطالبہ کیا ہے کہ ’نسوانی ختنے‘ کی اس ظالمانہ روایت کے خلاف جنگ اور اس میں کامیابی کے لیے اسے بھی ایسی ہی ترجیح بنایا جانا چاہیے، جیسی کہ ایڈز کے خلاف جنگ کو بنایا گیا ہے۔
م م / ع ح / تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن