1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نظام عدل معاہدہ، طالبان کی کارروائیاں مذید بڑھ گئیں

فرید اللہ خان، پشاور21 اپریل 2009

سرحدحکومت تمام تر ملکی اوربین الاقوامی مخالفت کے باوجود نفاذ شریعت محمدی کے معاہدےکے تحت نظام عدل ریگولیشن نافذ کرچکی ہے۔ اس کے بعد مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کی سرگرمیوں میں اس طرح کمی نہیں آئی جس کی توقع کی جارہی تھی۔

https://p.dw.com/p/HbTK
سوات معاہدے کے بعد علاقے میں طالبان کی کارروائیوں کی نمایاں اضافہ ہوا ہےتصویر: AP

16فروری کے امن معاہدے کے بعد توقع تھی کہ مسلح طالبان اپنی سرگرمیاں بھی کم کریں گے اور معاہدے کی روسے اسلحہ رکھ دیں گے لیکن اس کے برعکس جہاں سوات کے مختلف علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری ہیں وہاں انہوں نے سوات کے ملحقہ علاقہ ضلع بونیر میں بھی اپنی سرگرمیاں بڑھادی ہیں۔

ضلع بونیر میں پہلے طالبان نے بزرگ صوفی پیر باباکے مزار پر قبضہ کر لیا جبکہ دوسرے روز غیر سرکاری اداروں یوایس ایڈ اور ایکشن ایڈکے تحت چلنے والے اداروں کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا۔ طالبان نے ان اداروں کی گاڑیوں اور امدادی اشیاء خوردنوش کو لوٹ لیا۔ بونیر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں حکومتی عمل درای رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہے۔ پولیس اورانتظامیہ کی موجودگی میں طالبان نے تین مراکز قائم کیے ہیں وہاں مفتی بشیرکو قاضی مقرر کیاگیا جوعوام کی شکایات سنیں گے جبکہ طالبان کے سربراہ مولانافضل اللہ کے ملٹری چیف فتح محمد سمیت درجنوں مسلح افراد پیر بابا اور ملحقہ دیہاتوں میں گشت کرتے رہے ہیں۔

ان طالبان کاموقف ہے کہ وہ مقامی لوگوں کی دعوت پر بونیر آئے ہیں اور فی الحال جرائم پیشہ افرادکوپکڑ کر اپنی جیلوں میں بندکررہے ہیں اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے وزیراعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے صوبے میں پولیس کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ پولیس کوحالات سے نمٹنے کے لئے ساڑھے چار سوارب روپے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔

Jalozai
طالبان کے اسلحہ نہ پھینکنے پر سوات کے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہےتصویر: AP

وزیراعلیٰ سرحد نے کہا: ’’سرحد پولیس کے لئے ساڑھے چار ارب روپے کی لاگت ایک جامع منصوبے پرعملدرآمد شروع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کے بنیادی تنخواہ میں سوفیصد اضافہ کیاجارہا ہے اورمجموعی طورپر اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی پولیس فورس کو اعتماد میں لیاگیاہے تاہم ہمیں اپنے پولیس کے لئے بہت کچھ کرناہے۔‘‘

بونیر میں طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافے نے مالاکنڈ ڈویژن اور سرحدکے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے مالاکنڈ کے عوام دبے الفاظ میں مطالبہ کررہے ہیں کہ اب طالبان کو بھی معاہدے کی روسے اسلحہ رکھنا چاہیے مولاناصوفی محمد کے مینگورہ جلسے میں بھی عوام یہی توقع کررہے تھے کہ وہ طالبان سے اسلحہ رکھنے کے لئے کہیں گے لیکن ایسا نہ ہو نے پر بونیر میں ان کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ حکومت سرحد جہاں نظام عدل ریگولیشن نافذ کرچکی ہے وہاں مالی امداد اور ساٹھ سے زیادہ طالبان قیدی بھی رہا کرچکی ہے۔

سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین کہتے ہیں : ’’ نظام عدل ریگولیشن کانفاذ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کامطالبہ تھا اور یہ مطالبہ پورا ہوچکا ہے اب اسلحہ اٹھانا بلاجواز ہے۔ ان کے پاس اسلحہ اٹھانے کاجواز ہی نہیں ہے۔ حکومت ان سے اتنی جلدی سب کچھ کرسکتی تھی جو فوج ڈیڑھ سال میں نہ کرسکی اگرہم مذاکرات کے ذریعے صورتحال پرقابوپانے کی کوشش کررہے ہیں تواس میں تھوڑا بہت وقت ضرور لگے گا اور ہماری یہی پوزیشن ہے کہ وہ اسلحہ چھوڑیں گے ہم ہی کہیں گے کہ وہ اسلحہ نہیں اٹھائیں گے ہم یہی کہتے ہیں کہ ان کے پاس اسلحہ اٹھانے کاجواز باقی نہیں رہا اس کے باوجود بھی اگروہ ایسا کریں گے تو حکومت لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے اور عمل داری قائم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گی۔‘‘

میاں افتخارحسین کاکہنا ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی اورملکی دباؤ قبول کرکے امن معاہدہ کیا اوراگر اس کے باوجود امن قائم نہیں ہوتا توحکومت کے پاس کارروائی کا آپشن بھی موجود ہے۔