’نفرت پھیلانا پاکستان کی مجبوری ہے‘، بھارت کا الزام
10 نومبر 2019بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا، ''ہم ایک سول معاملے میں بھارتی عدالت عظمٰی کے فیصلے پر پاکستان کے نامناسب اور غیر ضروری تبصروں کو مسترد کرتے ہیں۔"
پاکستانی دفتر خارجہ کا بیان
بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق، ”بھارتی سپریم کورٹ کے تاریخی بابری مسجد کے حوالے سے فیصلے پر ہمیں گہری تشویش ہے۔ فیصلہ ایک مرتبہ پھر انصاف کے تقاضے برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔ اس فیصلے نے بھارت کے نام نہاد سیکیولر بھرم کو کھوکھلا کردیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ اپنے عقائد اور اپنی عبادات کے مقامات کے حوالے سے خوف کا شکار ہیں۔" پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا، ”بھارت میں ہندوتوا کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے ایک ہندو راشٹر کی شکل میں تاریخ کو نئے سرے سے رقم کرنے کا عمل جاری ہے۔"
بھارتی سپریم کورٹ نے ہفتہ نو نومبر کو بابری مسجد سے متعلق مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر پانچ ایکڑ زمین فراہم کی جائے۔ یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992 کو ہندوؤں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کردیا تھا۔ جس کے بعد بدترین فسادات نے پھوٹ پڑے تھے اور دوہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
شاہ محمود قریشی کا اعتراض
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کرتارپور کوریڈور کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بابری مسجد معاملے پر عدالت کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اس کو کچھ دن ٹالا نہیں جاسکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ”آپ (وزیر اعظم مودی) کو کرتار پور کوریڈور سے توجہ ہٹانے کے بجائے اس خوشی کے موقع کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ یہ ایک حساس تنازعہ تھا اور اسے اس مبارک دن کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمان پہلے ہی کافی دباؤ میں ہیں اور بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ ان پر مزید دباؤ بڑھا دے گا۔
بھارت کی تردید
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے پاکستانی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا، ”یہ فیصلہ قانون کی حکمرانی اور تمام مذاہب کے لیے یکساں احترام کے نظریات سے متعلق ہے جو ان (پاکستان) کے اخلاقیات کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کی عدم واقفیت کوئی حیرت کی بات نہیں۔ نفرت پھیلانے کے واضح ارادے کے ساتھ ہمارے داخلی معاملات پر تبصرہ کرنے کی ان کی یہ ذہنی بیماری اور مجبوری قابل مذمت ہے۔"
غیر ملکی سفیروں کو بریفنگ
اس دوران بھارتی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد وزارت خارجہ کے اعلٰی حکام نے متعدد غیر ملکی سفیروں کو اس فیصلے کی براہ راست اطلاع دی۔ ان میں بعض سفراء کا تعلق اہم اسٹریٹیجک اور بھارت کے قریبی اتحادی ممالک سے ہے۔ بھارت کے خارجہ سیکرٹری وجے گوکھلے نے انہیں براہ راست بریف کیا۔
دہلی میں ڈپلومیٹک کور کے ڈین ہانس ڈین برگ کیسٹیلانوس کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”حالانکہ یہ یقینی طور پر بھارت کا داخلی معاملہ ہے لیکن وزارت خارجہ کے اس اقدام کی وہ کافی تعریف کرتے ہیں جس میں اس فیصلے کے تاریخی پس منظر سے ہمیں آگاہ کیا گیا۔ ہمیں اس سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تاریخی پہلووں کو پوری طرح اور بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی۔"
رواں برس پانچ اگست کو جب مودی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آئین کی دفعہ 370کو ختم اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین اور متعدد دیگر یورپی اور افریقی ملکوں کے سفیروں کو بریف کیا گیا تھا۔
بابری مسجد اور دیوار برلن
دریں اثنا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آج یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ بھرپور صلاحیت کا حامل اور مضبوط ملک ہے۔جس طرح سے ہر طبقے کے لوگوں نے اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا ہے، اس سے اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے۔"
وزیر اعظم نریندر مودی نے بابری مسجد تنازعے پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا موازنہ دیوار برلن کے انہدام سے کیا۔ انہوں نے کہا، ”آج نو نومبر ہے۔ 1989ء میں آج ہی کے دن برلن کی دیوار گرادی گئی تھی جس کے بعد دو حریف نظریات آپس میں ملے تھے اور جرمنی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ آج ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے۔اس فیصلے سے ہمیں ایک نئی شروعات کا موقع ملا ہے، اس تنازع سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں تاہم ہمیں اس کو پس پشت ڈال کرایک نئے بھارت کا آغاز کرنا چاہیے۔"