'نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں‘ بھارتی سپریم کورٹ
27 ستمبر 2018ہندو قوم پرست تنظیمیں اس فیصلے کو اجودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کی سمت میں ایک قدم آگے بڑھنے سے تعبیر کررہی ہیں جب کہ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بابری مسجد کی حق ملکیت اور مسجد کو منہدم کرنے کی مجرمانہ سازش کے مقدمات کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ بابری مسجد معاملے پر سیاسی بیان بازی کا سلسلہ ایک بار پھرتیز ہو گیا ہے۔
دریں اثنا بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینیئر رکن اور وکیل ظفر یاب جیلانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ اس فیصلے سے مسلمانوں کے موقف کو دھچکا پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آج کے فیصلے کا بابری مسجد کے اصل تنازعے کی اپیلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے خود ہی کہا ہے کہ اس کا حق ملکیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایک خاص تناظر میں دی گئی رائے تھی۔‘
‘
آج کی پیش رفت کے بعد بابری مسجد تنازعہ ایک نئے اور دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اب اس تنازعے کے دونوں پہلوؤں پر مقدمہ شروع ہوجائے گا۔ پہلا حق ملکیت کا ہے جس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ جب کہ دوسرا مجرمانہ معاملہ ہے جس پر لکھنؤ ہائی کورٹ میں بحث ہوگی۔ اس میں بی جے پی کے کئی سینیئر لیڈران بشمول لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہرجوشی، اوما بھارتی وغیرہ پر بابری مسجد کو منہدم کرنے کی ساز ش میں ملوث ہونے کا مقدمہ چل رہا ہے۔
آج سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا تھا کہ آیا سن 1994 کےاس فیصلے کو کہ ’نماز مسجد میں پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے‘ کو بڑی بینچ میں بھیجاجائے یا نہیں۔ مسلمانوں نے عدالت سے اسے بڑی بینچ میں بھیجنے کی درخواست دی تھی۔ عدالت عظمی کی تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے سے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ بابری مسجد کی حق ملکیت کے معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اشوک بھوشن نے اس معاملہ کو بڑی بینچ بھیجنے سے انکار کیا جب کہ جسٹس عبدالنذیر نے بڑی بنچ کو بھیجنے سے اتفاق کیا۔
عدالت نے کہا، ’’ 1994میں اسماعیل فاروقی معاملہ میں جو فیصلہ آیا تھا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ کہ ’مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا اہم جز نہیں‘ لینڈ ایکویزیشن کے حوالے سے تھا لہذا اُس تبصرہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اسماعیل فاروقی معاملہ کیا ہے؟
اجودھیا میں ہندو کارسیوکوں نے 6 دسمبر سن 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے 7 جنوری 1993ء کو آرڈیننس لا کر مسجد کی زمین کے پاس کی 67 ایکڑ زمین کو ایکوائر کر لیا۔ اس ایکویزیشن میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا، جہاں بابری مسجد موجود تھی اور جسے آج بابری مسجد۔ رام جنم بھومی احاطہ کہا جاتا ہے۔
وفاقی حکومت کے اس فیصلہ کو اسماعیل فاروقی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اپنی عرضی میں کہا تھا کہ حکومت کسی مذہبی مقام کو ایکوائر نہیں کر سکتی۔ اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا مسجد کی زمین کو بھی حکومت اگر چاہے تو ایکوائرکر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سن 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسماعیل فارقی فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے مسجد اراضی سمیت 67 ایکڑ زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم سنایا تھا۔
ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں ہندو فریق کی جانب سے کہا گیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ اسماعیل فاروقی معاملہ کی روشنی میں فیصلہ سنا چکا ہے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا یہاں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ کیا جانا چاہیے اور اجودھیا کی زمین ہندؤں کو دی جانی چاہیے۔
ہندو فریق کی دلیل کے بعد مسلم فریق کے وکیل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اسماعیل فاروقی کیس میں اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہوئی ہے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا اہم جز نہیں ہے، لہذا سپریم کورٹ کی وسیع تر بینچ میں اس معاملہ کو بھیج کر فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ صاف کر دیا ہے کہ اسماعیل فارقی معاملہ صرف اور صرف لینڈ ایکویزیشن سے وابستہ تھا اور اس کا مسجد اراضی کے مالکانہ حقوق طے کرنے میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس فیصلے کے بعد بابری مسجد۔رام جنم بھومی کی اراضی حق ملکیت معاملے کی سماعت کا راستہ صاف ہو گیا ہے، اب اس معاملہ کی سماعت 29 اکتوبر سے کی جائے گی۔
آج کے فیصلے پر ہندو قوم پرست تنظمیں کافی پرجوش دکھائی دیں۔ زبی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے ٹوئٹ کیا’’ اس فیصلے سے مندر بنانے کا راستہ صاف ہوگیا ہے ۔ مندر کو شفٹ نہیں کیا جاسکتا۔ مسجد کو کیا جاسکتاہے۔ رخنہ ہٹ گیا ۔ رام مندر کی تعمیر ہوگی۔‘‘
اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے سرگرم تنظیم رام جنم بھومی ٹرسٹ کے سینیئر رکن ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی کا کہنا تھا ’’اجودھیا میں بہت سی مسجدیں ہیں وہاں پر جاکر مسلمان نماز پڑھیں ۔ نماز تو سڑک پر بھی پڑھی جاتی ہے۔‘‘شدت پسند ہندو قوم پرست جماعت وشو ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا’’اجودھیا تنازعے کو طول دینے کی کوشش کرنے والوں کی شکست ہوئی ہے۔‘‘
اپوزیشن کانگریس نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے بی جے پی پر دوہرا رویہ اپنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ الیکشن قریب آتے ہی بی جے پی مندر کا راگ آلاپنے لگتی ہے اور حکومت میں آتے ہی بھگوان رام کو بھول جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپریل سن 2017 میں حکم دیا تھا کہ ان معاملات پر دو سال کے اندر یعنی 19 اپریل 2019ء تک فیصلہ سنادیا جائے۔ امید کی جارہی ہے کہ دونوں فیصلے آئندہ سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ہی آجائیں گے۔ اس لحاظ سے ان کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ماضی کی طرح اگلے الیکشن میں بھی رام مندر کو اپنا انتخابی موضوع بنائے گی۔ اگر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی کارگزار ی قرار دے گی اور اگر فیصلہ ان کے خلاف ہوتا ہے تب بھی اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرے گی۔ دوسری طرف تمام مسلم جماعتوں نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ وہ عدالت عظمی کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔