’نو ڈیل بریگزٹ‘ اب ناممکن، ملکہ نے نیا قانون منظور کر لیا
9 ستمبر 2019برطانوی دارالحکومت لندن سے پیر نو ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پارلیمان کے ایوان بالا یا دارالامراء کے اسپیکر نے آج بتایا کہ ملکہ الزبتھ ثانی نے ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے منظور کردہ اس قانون کی حمایت کرتے ہوئے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی ہے، جس کے بعد ملکی مقننہ کا یہ فیصلہ قانون بن گیا ہے۔
یوں وزیر اعظم بورس جانسن کے لیے اب یہ نا ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اس سال اکتیس اکتوبر کو برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ کسی ڈیل کے بغیر ہی بریگزٹ کے اپنے ارادوں پر عمل کر سکیں۔ اس سے قبل بورس جانسن نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ اگر یونین نے لندن حکومت کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ کر لیا تو اچھا ہو گا، ورنہ ان کی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ برطانیہ 'نو ڈیل بریگزٹ‘ یا 'ہارڈ بریگزٹ‘ کی صورت میں یونین سے نکل جائے۔ اب لیکن قدامت پسند وزیر اعظم جانسن ایسا نہیں کر سکیں گے۔
بورس جانسن کو اس نئے قانون کے علاوہ بھی آج ہی دو دیگر انتہائی اہم معاملات کا سامنا بھی تھا۔ ایک ان کی آئرلینڈ کے وزیر اعظم سے ملاقات تھی، جس میں بریگزٹ اور 'بیک سٹاپ‘ پر بات چیت کی جانا تھی۔
دوسری برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں میں یونے والی وہ بحث ہے، جس کے اختتام پر یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ آیا برطانیہ میں قبل از وقت عام انتخابات کرائے جانا چاہییں۔
جانسن کی ان کے آئرش ہم منصب کے ساتھ ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ اور آئرلینڈ کی درمیانی سرحد کی آئندہ نگرانی سے متعلق ممکنات کے بارے میں دونوں رہنماؤں کے باہمی اختلافات دور نہ ہو سکے۔ جہاں تک قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کے ممکنہ فیصلے کا سوال ہے تو آخری خبریں آنے تک پارلیمانی بحث جاری تھی۔
اسی دوران وزیر اعظم بورس جانسن نے اتنا ضرور کہا کہ ملکہ کی طرف سے 'نو ڈیل بریگزٹ‘ کو روکنے سے متعلق کی گئی پارلیمانی قانون سازی کی منظوری کے بعد اب اگر وہ یونین کے ساتھ کسی نئی ڈیل کے لیے بات چیت کریں گے، تو ان کے 'ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے‘۔
اس کے علاوہ جانسن نے یہ بھی کہا کہ اب اکتیس اکتوبر کو کوئی 'نو ڈیل بریگزٹ‘ تو ممکن نہیں، لیکن اگر تب تک یونین کے ساتھ کوئی نیا بریگزٹ معاہدہ بھی طے نہ ہو سکا، تو اس کی ذمے داری جزوی طور پر خود اُن پر بھی عائد ہو گی۔
م م / اب ا (اے ایف پی، روئٹرز)