1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف اور عمران خان کے مابین مصالحت کی کوششیں تیز تر

شکور رحیم، اسلام آباد7 اگست 2014

پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے درمیان مصالحت کرانےکے لئے متحرک سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم سے اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کے فیصلے سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cqv5
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت کو سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں سے باز رہنے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔

آئندہ ہفتے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مجوزہ احتجاج سے قبل وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ جمعرات کو تیسرے روز بھی جاری رہا۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما سینٹر رضا ربانی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے وفود اور حکومت کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سینٹر حاصل بزنجو نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقا ت کی۔

پیپلز پارٹی اور اے این پی کے رہنماؤں نے وزیر اعظم ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات میں انہیں دارالحکومت میں فوج کی طلبی کانوٹیفیکشن فوری طور پر واپس لینے کا مشورہ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینٹر رضا ربانی نے کہا، ’’سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں یا طاہر القادری صاحب کے گھر پر کنٹینر لگا کر محاصرہ کیا گیا ہے۔ ہم نے پارٹی کی طرف سے انہیں (وزیراعظم ) کو تجویز دی ہے کہ وہ ان اقدامات پر نظر ثانی کریں اور جمہوری طریقہء کار اور روایات کو اپنائیں۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ سیاسی حکومت کو آئین کی وہ دفعات استعمال نہیں کرنی چاہییں، جو ماضی میں مارشل لاء لگانے والوں نے استعمال کیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ عمران خان نے حکومت کو کچھ شرائط اور تجاویز بھجوائی ہیں، اب حکومت کو چاہیے کہ وہ ان سفارشات پر دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرے۔

اسی دوران لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے دعویٰ کیا کہ شریف خاندان نے امریکا فرار ہونے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران ملک سے بھاگنے کی تیاریاں کر رہے ہیں لیکن عوام انہیں بھاگنے نہیں دیں گے اور ان کا احتساب کیا جا ئے گا۔ پی اے ٹی کے سربراہ نے کہا کہ اُن کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج اور کارکنوں کی گرفتاریاں حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کا نہ صرف منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ ان کی شکست خوردگی کا اظہار بھی ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ حکومت نے نام نہاد احتجاج سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاسی رہنما ہیں، اس لئے حکومت بات چیت کے ذریعے ان سے مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے لیکن طاہر القادری کا معاملہ دوسرا ہے۔ سعد رفیق نے کہا، ’’ان کے بیانات اور عمل بڑے ہی قابل اعتراض ہیں۔ انہوں نے لاشیں گرانے کی بھی بات کی ہے۔ انہوں نے پولیس والوں کے گھروں پر مسلح لوگوں کے جتھوں کی صورت میں حملے کا اعلان بھی فرمایا ہے۔ تو قادری صاحب کا جو ایجنڈا ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ جس نے بھی اسلام آباد آنا ہے اسے یہ ضمانت دینی پڑے گی کہ وہ حدود و قیود میں رہے گا، قانون کی پاسداری کرے گا۔‘‘

دریں اثناء تحریک انصاف کے مجوزہ آزادی مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ سول سوسائٹی کی ایک نمائندہ طاہرہ عبداللہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آزادی مارچ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس سے نہ صرف یوم آزادی پر اسلام آباد کے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت متاثر ہوگی بلکہ سکیورٹی کے مسائل بھی پیدا ہو جائیں گے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس مارچ کو روکنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔