بینکوں کے رقوم نکلوانے پر ٹیکس نامنظور، تاجروں کی ہڑتال
7 جولائی 2015انجمن تاجران پاکستان کے سربراہ خالد پرویز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ اور ملتان سمیت ملک کے بڑے شہروں میں تاجروں نے احتجاج کیا۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں 80 فیصد مارکیٹیں بند رہیں۔ خاص طور پر ہول سیل کی مارکیٹوں میں تو مکمل ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ نواز شریف اور شہبار شریف کے روایتی انتخابی حلقوں میں بھی ہڑتال کے اثرات موجود تھے۔ وزیراعلٰی پنجاب کے مشیر اور تاجر رہنما ناصر سعید کی مارکیٹ بھی بند رہی۔
بعض علاقوں میں سرکاری اہلکاروں کے ذریعے مارکیٹیں زبردستی کھلوانے کی کوششیں بھی کی گئیں تاہم تاجروں نے انہیں ناکام بنا دیا۔
پاکستان کی مرکزی حکومت نے بینکوں کے ذریعے رقوم کی لین دین یا ٹرانزیکشنز پر 0.6 فیصد کی شرح سے ایک ٹیکس عائد کر دیا ہے جو ان لوگوں پر عائد ہوگا جو پچاس ہزارروپے سے زائد رقوم نکوائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں تاجر رہنما خالد پرویز نے بتایا کہ تاجر اس ٹیکس کے خاتمے تک حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔ ان کے بقول تاجر ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن غیر منصفانہ طریقے سے ٹیکس نہیں دیں گے۔ ان کے مطابق یہ ٹیکس پیسے بینکوں میں جمع کروانے والے لوگوں پر بھی لگے گا۔ ان کے بقول نئے ٹیکس سے پنشنرز اور بیواؤں کی بینکوں میں پڑی ہوئی جمع پونجی پر سے بھی ٹیکس کاٹ لیا جائے گا۔ خالد پرویز کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے یہ ٹیکس واپس نہ لیے جانے کی صورت میں ملک گیر احتجاجی تحریک کی کال دے دی جائے گی: ’’نواز شریف خود تاجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ تو تاجروں سے زیادتی نہ کریں، ہم تاجر اگر نواز شریف کو کندھوں پر سوار کر کے اقتدار کے ایوانوں میں لا سکتے ہیں تو انہیں اتار بھی سکتے ہیں۔‘‘
اس ہڑتال کی مخالفت کرنے والے تاجروں کے گروپ کے سربراہ اور انجمن تاجران انارکلی کے صدر حاجی اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں ہڑتالی تاجروں کے مطالبات سے تو اتفاق ہے لیکن ہڑتالوں کی بجائے بات چیت کا راستہ اپنایا جانا چاہیے۔ انہیں امید ہے کہ کل بدھ کے روز اسلام آباد میں تاجروں کے وفاقی وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر سے ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوں گے اور تاجروں کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔
وزیراعلٰی پنجاب کے مشیر اور پاکستان مسلم لیگ ٹریڈرز ونگ کے رہنما ناصر سعید کا مؤقف تھا کہ تاجروں کو گمراہ کن اور غلط اطلاعات دے کر ہڑتال پر اکسایا گیا۔ انہو ں نے سوال اٹھایا کہ تاجر اگر ٹیکس نہیں دیں گے تو ملک کیسے چلے گا؟ ترقیاتی کاموں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے اور کشکول کیسے ٹوٹے گا؟ انہوں نے اپیل کی کہ تاجر برادری ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ملکی مفاد کا خیال کرے۔
اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد نے بتایا کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ نواز شریف بے نظیر بھٹو کے دور میں وزیر اعلٰی پنجاب کے طور پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف تاجروں کے ایسے احتجاجوں کو سپورٹ کیا کرتے تھے آج ان کی وہی تاجر برادری ان کی ٹیکس پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔
لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر نعمان یحیٰی ے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تاجروں کی اصل پریشانی یہ ہے کہ ٹیکس کے گوشوارے نہ داخل کرنے والے تاجروں پر عائد اس ٹیکس سے تاجروں کی آمدنی کا درست اندازہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس آ جائے گا اورپھر ان کے لیے ٹرن اوور ٹیکس سے بچنا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم ان کے مطابق نئے قانون میں کچھ اقدامات درست کیے جانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔
ایف بی آر کے ترجمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اس ٹیکس کا مطلب اکانومی کو ڈاکومنٹ کرنا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے۔ ان کے بقول یہ ٹیکس ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے سینٹ اور قومی اسمبلی کی فنانس کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی سفارش سے لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیکس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس آدمی پر لاگو ہوگا جو بینک سے پچاس ہزار روپے نکلوائے گا۔ یاد رہے پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح صرف نو فی صد ہے۔