نوبل انعام برائے امن، اوباما بازی لے گئے
9 اکتوبر 2009ناروے کے دارلحکومت اوسلو میں نوبل فاؤنڈیشن کی پانچ خفیہ رکنی کمیٹی نے اس سال کا نوبل انعام برائے امن باراک اوباما کو دیا۔ ناروے میں نوبل کمیٹی کے سربراہ تھوربییون یاگ لینڈ نے صدر اوباما کی بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کے لئے غیر معمولی کاوشوں سراہا اور کہا کہ کو اوباما کی یہی کوششیں دنیا میں امن وسلامتی کا ایک نیا بات کھولیں گی۔
صدر اوباما کو امن انعام ملنے پر دنیا بھر میں خوشگوار حیرانگی کا اطہار کیا جارہا ہے، کیونکہ ابھی تو اوباما کو امریکی صدارت سنبھالے صرف نو مہینے ہی ہوئے ہیں اور ان کی کوششوں کا ثمر ابھی سامنے آنے کے امکانات فی الوقت اتنے روشن بھی نہیں۔
سال رواں کے نوبل انعام برائے امن کے لئے دنیا بھر سے 205 امیداروں کے نام تجویز کئے گئے تھے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ نوبل انعام کے اعلان سے قبل ہی مغربی ممالک میں اس حوالے میں چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ اس مرتبہ یہ انعام کس کے حصہ میں آئے گا۔
برطانوی بک میکر ’’لاڈ بروکس‘‘ اور آئرش ’’پیڈی پاور‘‘ نے چین کی کمیونسٹ حکومت کے مخالف اور وہاں انسانی حقوق کے لئے سرگرم کارکن ہو جیا کو اس انعام کے لئے فیورٹ قرار دیا تھا۔ گو کہ اب یہ چہ مگوئیاں دم توڑ گئی ہیں، کیونکہ یہ انعام اب صدر اوباما کو مل گیا ہے۔ نوبل امن انعام کے ضمن میں 1.4 ملین ڈالر کی رقم اس انعام کے جیتنے والے کو دی جاتی ہے۔ صدر اوباما کو یہ انعامی رقم اور نوبل ڈپلوما دس دسمبر کو دیا جائے گا۔
نوبل انعام برائے امن کے فیورٹ امیدواروں کی فہرست میں کولمبیا کے سینیٹر پیڈاد کورڈوبا، اردن کے غازی بن محمد اور افغانستان میں عورتوں کے حقوق کے جدوجہد میں سرگرم نامور کارکن سیمی ثمر کے نام بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ناروے کے قومی ٹی وی چینل کے مطابق زمبابوے کے مورگن زوان گیرائے بھی اس سال کے نوبل انعام کے لئے پسندیدہ امیدوار تھے۔
رپورٹ: انعام حسن
ادارت: کشور مصطفٰی