نوبل انعام یافتہ ادیبہ ڈورِس لیسنگ کا انتقال
18 نومبر 2013ڈورِس لیسنگ انگریزی ہی کی نہیں بلکہ بین الاقوامی ادب کا سرمایہ تصور کی جاتی تھیں۔ ان کی تحریریں نظریات کی کشمکش، نسلی تعصب سے ابھرنے والے رویے، جینڈر سیاست کے علاوہ نفسیاتی عوامل کا بھرپور جائزہ پیش کرتی ہیں۔ وہ عصر حاضر کی نمائندہ لکھاری تصور کی جاتی تھیں۔ ناقدین کے مطابق اپنی تحریروں میں وہ اپنی ذات کی تلاش کے سفر میں تمام عمر روانہ رہیں۔ انہوں نے نسائیت پرستوں اور بائیں بازو کے ویلکم کرتے ہاتھوں کو ہمیشہ جھٹک دیا۔ یہ اور بات ہے کہ نسائی پرست ادیب اور بائیں بازو کے مصنفین ڈورِس لیسنگ کو ہمیشہ اپنے مقاصد کا حامی خیال کرتے رہے۔
ڈورِس لیسنگ کے 55 ناول اور مختصر کہانیوں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ہر ناول اچھوتے خیال کا حامل تھا اور ہر کہانی فنی اعتبار سے ایک مکمل شہ پارہ خیال کی جاتی ہے۔ نفسیاتی مسائل پر مبنی ناول ہو یا پہلی عالمی جنگ کے تجربات، ہر خیال تکنیک کے اعتبار سے بھی بلند پایہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کا آخری ناول سن 2008 میں الفریڈ اور ایملی شائع ہوا تھا۔
ڈورِس لیسنگ عمر بھر نسوانیت پسندوں کی تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ رحلت سے دس برس قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ خواتین کی حالت نسائیت پرست تنظیموں اور ادیبوں سے نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ گھریلو استعمال کی جدید مشینوں اور مانع حمل گولی سے تبدیل ہوئی ہے۔ ان کو سن 2007میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
وہ 22 اکتوبر 1919ء کو ایرانی شہر کرمان شاہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ برطانوی فوجی افسر کی بیٹی کا پیدائش پر نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ ایران سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے برطانیہ کی افریقی نو آبادی رہوڈیشیا چلی گئیں۔ سابقہ رہوڈیشیا آزادی کے بعد اب زمبابوے کہلاتا ہے۔ وہ 14 برس سے زیادہ اسکول میں تعلیم حاصل نہ کر سکیں۔
اسکول چھوڑنے کے بعد انہوں نے اپنی تخلیقی قوتوں کو ڈی ایچ لارنس، چارلس ڈکنز، فیودر دوستوفسکی اور لیُو ٹالسٹائی کے فن پاروں کا مطالعہ کر کے پختگی عطا کی۔ افریقہ میں قیام کے دوران اور بعد میں بھی ڈورِس لیسنگ نسلی امتیاز کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہیں۔ اسی باعث وہ برسوں رہوڈیشیا اور جنوبی افریقہ میں ناپسندیدہ شخصیت رہی۔ سن 1949 میں ان کی دوسری شادی بھی جب طلاق پر ختم ہوئی تو وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انگلستان میں آباد ہو گئیں۔
ڈورِس لیسنگ کی رحلت کے بعد نامی گرامی ادیبوں نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ خراج تحسین پیش کرنے والے ادیب اِس پر متفق ہیں کہ ان کی تحریروں میں گرم جوشی، ذہن کی پختگی اور قلم کی شدت محسوس کی جاتی ہے۔ ان کی پہلی کتاب دی گراس اِز سنگنگ (The Grass Is Singing) طباعت کے فوری بعد امریکا، لاطینی امریکا اور یورپ میں مقبول کتابوں میں شمار ہونے لگی تھی۔ اُن کے ناول گولڈن نوٹ بُک کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ سویڈِش اکیڈمی آف سائنسز نے اُن کے لیے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈورِس لیسنگ ایک ایسی خاتون کہانی کار ہیں جس نے شکوک، جذباتیت اور اپنے خیال کی روانی سے مستقبل میں دور تک دیکھنے کی بصیرت سے ٹوٹ پھوٹ کی شکار اپنی ہمعصر تہذیب کو انتہائی قریب سے جانچا اور پرکھا ہے۔