نوجوان فلسطینی نسل خود مختار انتظامیہ سے نالاں
14 اکتوبر 2015کوفیہ نامی مخصوص فلسطینی رومال سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے یہ نوجوان اپنے لہجے سے پرعزم معلوم ہوتا ہے۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم (اسرائیلی) فوجیوں پر پتھر برساتے رہیں گے۔‘‘ اس نوجوان نے مزید کہا، ’’فلسطینی اتھارٹی ہمیں روکے گی، کیونکہ وہ مذاکرات کے حق میں ہے۔ لیکن ہمیں ظاہر کرنا ہے کہ ہم ان سے متفق نہیں ہیں۔‘‘
مغربی اردن کے کنارے کے شہر راملہ کے قریب واقع ایک اسرائیلی چیک پوائنٹ کے نزدیک روزانہ ہی ہزاروں نوجوان جمع ہوتے ہیں، جو مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس دوران ان مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ معمول کی بات بن چکا ہے۔ پرتشدد مظاہروں اور چاقوؤں سے کیے جانے والے حملوں میں اضافے کے نتیجے میں حالات مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔ فلسطینیوں کی نئی نسل ان تازہ مظاہروں کا اہتمام کر رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ نوجوان نسل 1993ء میں طے پانے والے اوسلو امن معاہدے کے بعد پیدا ہوئی۔ اگرچہ اس معاہدے میں فلسطینیوں کے حقوق کو تحفظ دینے کی بات کی گئی ہے لیکن نوجوان فلسطینی اسے ایک ناکام معاہدہ تصور کرنے لگے ہیں۔
فلسطینیوں کی نوجوان نسل 1987-93 اور 2000-5 کی انتفادہ تحریکوں سے کچھ زیادہ واقف نہیں ہے۔ ان دونوں ادوار میں روزانہ کی بنیادوں پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ہونے والے تشدد میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ آج کی نوجوان فلسطینی نسل میں اس بارے میں بھی کافی بے چینی پائی جاتی ہے کہ اسرائیل ایسے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری کر رہا ہے، جنہیں وہ اپنے علاقے تصور کرتے ہیں۔ یہ نئی نسل ’عرب اسپرنگ‘ بھی دیکھ چکی ہے جبکہ یہ 2008ء کے بعد سے اب تک تین جنگوں کو بھی جَھیل چکی ہے۔
فلسطینی علاقوں کی دو تہائی آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی نے ان نوجوانوں کے غم و غصے کو شدت دی ہے۔ یہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے مظاہروں کی منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ وہ پتھراؤ اور ’شہدا‘ کی تصاویر شائع کر کے اپنی مہم کو مزید پھیلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز کی خونریز فائرنگ کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شائع کی جا رہی ہیں۔
خود مختار فلسطینی اتھاڑتی کے مطابق اکتوبر کے شروع سے اب تک مختلف پرتشدد واقعات میں کم از کم تیس فلسطینی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ چار سو کے قریب افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے، جن میں سے نصف کی عمریں چودہ اور بیس برس کے درمیان ہیں۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران سات اسرائیلی ہلاک جبکہ اٹھانوے زخمی ہو چکے ہیں۔
فلسطینی حکام اس موجودہ تناؤ میں کمی کرنے کی کوشش میں ہے۔ صدر محمود عباس نے بھی کہا ہے کہ فلسطینی پرامن مزاحمت کریں۔ فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کہتے ہیں کہ یہ وہ نوجوان نسل ہے، جس نے یہودی آباد کاری دیکھی ہے اور اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں میں تسلسل کے خلاف یہ فلسطینی ردعمل قدرتی بات ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ نوجوان مظاہرین موجودہ فلسطینی اتھارٹی کے بیانات سے بھی خوش نہیں ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار اور مصنف خلیل شاہین کے بقول یہ نوجوان مظاہرین فلسطینی اتھارٹی کی اپیلوں پر مزید کان نہیں دھریں گے۔ فلسطینی انتظامیہ، جس کی سربراہی اس وقت محمود عباس کر رہے ہیں، دراصل اوسلو معاہدے کے نتیجے میں ہی عمل میں آئی تھی۔ یہ اتھارٹی ابتدا میں صرف پانچ برس کے لیے تخلیق کی گئی تھی، جس کا مقصد اسرائیلی اور فلسطینیوں کے مابین قیام امن کے لیے مذاکرات کو حتمی شکل دینا تھا۔ تاہم دو عشروں بعد بھی اسرائیلی فلسطینی تنازعہ برقرار ہے۔ خلیل شاہین نے اے ایف پی کو بتایا کہ نوجوان فلسطینی مظاہرین نہ صرف اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف غم و غصے کا شکار ہیں بلکہ یہ فلسطینی اتھارٹی کے اقدامات پر بھی نالاں ہیں۔