’نہ رات کو یوں پھرتی، نہ ریپ ہوتی‘
3 مارچ 2015نئی دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر کے اُس کا قتل کرنے والے مجرموں میں سے ایک نے اس واقعے کی ذمہ دار مقتولہ کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ’اُسے رات کو اس طرح نہیں گھومنا چاہیے تھا‘۔
یہ بیان اُس ڈاکومنٹری فلم میں شامل کیا گیا ہے جو اس سال خواتین کے عالمی دن پر نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ مُکیش سنگھ کو مذکورہ جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 2012 ء میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی طالبہ کو رات کے وقت تنہا باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا اور چلتی بس میں جس وقت اُس کے ساتھ زیادتی کی جا رہی تھی اُس وقت اُسے مزاحمت نہیں کرنا چاہیے تھی۔ سنگھ کے بقول،"تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ایک باحیاء اور شائستہ لڑکی رات کے 9 بجے یوں آوارہ پھرتی نظر نہیں آتی"۔ مُکیش سنگھ کے ساتھ بی بی سی نے ایک انٹرویو کیا جسے اُس ڈاکومنٹری میں شامل کیا گیا ہے جسے اتوار 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر نشر کیا جائے گا۔ اس ڈاکومنٹری کا نام ہے" انڈیاز ڈاٹر یا بھارت کی بیٹی"۔ اس ڈاکومنٹری فلم کو بنانے والوں نے مُجرم مُکیش سنگھ کا انٹرویو 2013ء میں کیا تھا اور اب اس انٹرویو کو تحریری شکل میں منظر عام پر لایا گیا ہے۔
مجرم موُکیش سنگھ کا کہنا ہے کہ "جسمانی زیادتی یا ریپ کے کیس میں لڑکے سے زیادہ لڑکی ذمہ دار ہوتی ہے"۔ مُکیش سنگھ کی طرف سے قتل ہونے والی لڑکی پر الزامات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اُس نے مزید کہا،"گھریلو کام کاج اور گھرداری دراصل ایک مہذب لڑکی کی اوّلین ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ راتوں کو ڈسکو اور بار میں پھرنا، غلط کاموں میں ملوث رہنا اور نامناسب لباس پہننا"۔
مقتولہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ نئی دہلی کے ایک معروف مال سے فلم دیکھ کر لوٹ رہی تھی کہ بس پر چڑھتے ہوئے حملہ آوروں نے اُسے اپنے قبضے میں لیا اور اُس کے ساتھ باری باری جنسی زیادتی کی، اُس کے حساس عضو میں ان بدمعاشوں نے لوہے کا راڈ ڈالا جس سے اُس لڑکی کو شدید اندرونی زخم آئے اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی تھی۔
سنگھ اور تین دیگر کو 2013 ء میں ایک تیز رفتار عدالتی کارروائی والے کورٹ میں پیش ہونا پڑا جہاں ان تینوں نے پہلے اقبال جُرم کر لیا مگر بعد میں یہ کہہ کر اس سے مُکر گئے کہ اُن سے زور زبردستی اور اذیت دے کر اقبال جُرم کروایا گیا تھا۔ عدالت نے ان مجرموں کو موت کی سزا سنائی تھی تاہم انہوں نے اس کے خلاف اپیل دائر کی تھی جو اب تک سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔
23 سالہ فزیو تھراپی کی طالب علم کے ساتھ یہ گھناؤنا اور بربریت کی مثال سمجھا جانے والا واقعہ 16 دسمبر 2012ء کو پیش آیا تھا۔ وہ تیرہ روز بعد اس دنیا سے رُخصت ہو گئی مگر اُس کے واقعے نے دنیا بھر میں بھارت میں خواتین کی صورتحال کے حوالے سے غم و غصے کی ایک لہر دوڑا دی۔
انتقال سے پہلے اس طالبہ نے پولیس کو اپنا بیان دیا تھا جس کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والے اس ملک کے اندر اور بیرون ملک بھی بہت بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے خوفناک سطح پر پہنچنے کی علامت یہ واقعہ تھا جس پر ہونے والے احتجاج کا نتیجہ مقدمات کی سماعت کو تیز اور جرمانہ میں اضافے، اور عصمت دری کے قانون میں اہم اصلاحات کی صورت میں نکلا۔
لیکن 28 سالہ سنگھ نے کہا ہے کہ اُس کی پھانسی "مستقبل میں عصمت دری کی شکار خواتین کی زندگی کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوگی"۔
ڈاکومنٹری "انڈیاز ڈاٹر یا بھارت کی بیٹی" بنانے والے ایوارڈ یافتہ برطانوی فلم سازLeslee Udwin کو انٹرویو دیتے ہوئے سنگھ کا کہنا تھا،"ہم نے ریپ کے بعد جیسے اس لڑکی کو چھوڑ دیا مستقبل میں یہ نہیں ہوگا۔ آئندہ حملہ آور ریپ ہونے والی لڑکی کو قتل کر دیا کریں گے"۔
" انڈیاز ڈاٹر یا بھارت کی بیٹی" کو 8 مارچ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بھارت اور برطانیہ سمیت سات ممالک میں نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔