نیا سال: مہاجر دوست جرمن حلقے مہاجرین کی حمایت کے لیے پرعزم
31 دسمبر 2015جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن اور مہاجرت (بی اے ایم ایف) کا کہنا ہے کہ اس دوران شام، عراق اور اریٹریا جیسے شورش زدہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کی درخواستوں پر فیصلے ترجیحی بنیادوں پر کیے جائیں گے جب کہ دوسرے ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کی درخواستوں کا انفرادی طور پر جائزہ لینے اور فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی جماعت، کرسچن سوشل یونین کی جانب سے گزشتہ روز تارکین وطن کی جرمنی آمد کو ’انتہائی کم‘ کرنے، ملک بدریوں میں اضافہ کرنے اور بغیر شناخت کسی کو جرمنی آنے کی اجازت نہ دینے جیسے سخت مطالبات منظر عام پر آئے تھے۔
قدامت پرست اور مہاجرین مخالف جماعت کے ان مطالبات کو جرمنی کے ان تمام سیاسی و سماجی حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا جو تارکین وطن کی مدد اور حمایت کرتے ہیں۔
جرمنی میں پروٹسٹنٹ کلیسا کی قومی کونسل کے سربراہ ہائنرش بیڈفورڈ شٹروہم کا کہنا ہے کہ ہمیں تارکین وطن کے دل جیتنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ شٹروہم کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی میں پہلے سے آباد مسلمان شہری مہاجرین کے انضمام میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت (لنِکس پارٹی) نے سی ایس یو کی جانب سے شناختی دستاویزات کے بغیر پناہ گزینوں کو جرمنی نہ آنے دینے کے مطالبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والی جرمنی کی وفاقی کمشنر برائے مہاجرت، ایڈان اُوزوس کا کہنا تھا کہ ان مطالبات پر عمل درآمد کی صورت میں مہاجرین کے بحران پر یورپی یونین کی جانب سے مشترکہ پالیسی اختیار کرنے کا خواب چکنا چوُر ہو جائے گا۔
شہر ٹوبِنگن کے گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر نے روزنامہ ’بلڈ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے مصلحت کے ساتھ نمٹا جائے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے نئے سال کے پیغام میں کہا ہے کہ مہاجرین کی آمد ملکی اقتصادیات میں بہتری کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی فائدہ مند ہو گی۔ وہ پُر امید ہیں کہ جرمنی اس بحران سے بخوبی نمٹ سکتا ہے۔ جرمنی کے عوامی نشریاتی ادارے نے پہلی مرتبہ ان کی تقریر کو عربی ’سب ٹائٹلز‘ کے ساتھ نشر کیا۔
جرمن ریڈ کراس کے ساتھ ساتھ رضاکاروں کے محکمے کے سربراہ اور سماجی بہبود کے دیگر اداروں کی جانب سے بھی نئے سال کے موقع پر تارکین وطن کے لیے خیر سگالی کے پیغامات دیے گئے۔