نیا موڑ، ترک افواج شام میں داخل ہو ہی گئیں
21 جنوری 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کے حوالے سے بتایا ہے کہ کرد ملیشیا گروہ کے خلاف جاری ملکی فوج کی کارروائی کے دوران بروز اتوار ترک دستے شام میں داخل ہو گئے۔ ترک فورسز نے ہفتے کے دن پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے خلاف یہ کارروائی شروع کی تھی۔ سکیورٹی مبصرین نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ترک بری افواج اس کارروائی میں شامی سرحد عبور کر سکتی ہیں۔
شام میں ترک فوج کا زمینی آپریشن شروع، عفرین کے بعد منبج بھی
ترکی کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی ضمانت پر مطمئن نہیں
شام کا تنازعہ، ترکی امریکا کے لیے کس قدر ضروری ہے؟
ترک وزیر اعظم نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی افواج عالمی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجکر پانچ منٹ پر عفرین ریجن میں داخل ہوئیں۔ یہ وہی شامی علاقہ ہے، جہاں کرد ملیشیا YPG کے جنگجوؤں کا کنٹرول ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسیوں کے مطابق ترک دستے انقرہ نواز باغی گروہ فری سیرین آرمی کے فائٹرز کے ساتھ آہستہ آہستہ پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شامی میڈٰیا میں ایسی تصاویر اور ویڈیو بھی نشر کی گئی ہیں، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ترک ٹینک اور فوجی گاڑیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ شام میں کرد باغیوں کے خلاف اس نئی کارروائی میں کتنے ترک فوجی میدان میں اترے ہیں۔ انقرہ اس کرد ملیشیا کو ’کردستان ورکرز پارٹی‘ سے وابستہ قرار دتی ہے، جسے ترک حکومت ’دہشت گرد‘ قرار دیے چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو ترکی کی سالمیت اور خودمختاری کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
انقرہ حکومت نے شام سے متصل ترک علاقوں میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری کردستان ورکرز پارٹی پر عائد کر رکھی ہے۔ تاہم YPG کا کہنا ہے کہ اس کا ترک کرد علیحدگی پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ کرد باغی شامی جنگ میں نیٹو رکن ملک امریکا کے اہم اتحادی ہیں، جو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
ہفتے کے دن ترکی فوج نے عفرین میں فضائی حملے شروع کیے تھے، جس میں انہی باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ دمشق حکومت پہلے بھی الزام عائد کر چکی ہے کہ ترک افواج بری افواج نے شامی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ترک حکومت نے اعلانیہ کہا ہے کہ ترک فوجی شام میں داخل ہوئے ہیں۔ ترک وزیر اعظم کے مطابق اس کارروائی کا مقصد ان کرد باغیوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سکیورٹی زون قیام کیا جا سکے۔