نیس دہشت گردانہ حملہ، مسلمان بھی غم میں ڈوبے ہوئے
18 جولائی 2016نیس کے ایک مقامی اخبار کہ شہ سرخی یہ تھی، ’’لامتناہی درد‘‘۔ اس درد کو نیس کے لوگوں کے چہروں پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جمعرات کی شب ایک حملہ آور نے ایک مجمعے پر سفید رنگ کا ٹرک چڑھا دیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم چوراسی افراد ہلاک جبکہ دو سو سات زخمی ہو گئے تھے۔
نفرت کی بجائے سب کے لیے محبت
جائے وقوعہ پر موجود امین بیدسہ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس حملے میں میں اور میرے گھر والے بال بال بچے۔‘‘ امین نے اپنی تین سالہ بیٹی کو اٹھا رکھا ہے ، ’’ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک دوسرا بچہ ٹرک کے نیچے کچلا گیا۔‘‘ بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ امین کا کہنا تھا، ’’یہ ایک انتہائی خوفناک منظر تھا۔‘‘
امین کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ امین نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جائے وقوعہ پر ایک بینر بھی آویزاں کیا ہے، جس پر لکھا ہوا ہے، ’’سب کے لیے محبت، نفرت کسی سے بھی نہیں‘‘۔
اسی دوران ہالینڈ کی ایک خاتون کا کہنا تھا، ’’مسلمانوں کو واضح طور پر دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کرنی ہو گی اور ان سے اظہار لاتعلقی کرنا ہوگا۔‘‘ امین کا اس خاتون کو جواب دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم ایسا کر رہے ہیں لیکن میڈیا اس کو منظر عام پر نہیں لاتا۔‘‘ وہاں موجود ایک عمر رسیدہ فرانسیسی کا کہنا تھا، ’’سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین ہیں۔ یہاں پر تیونس کے لوگ بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ اکتیس سالہ تیونسی نژاد حملہ آور کے پاس فرانس کا مستقل رہائش پرمٹ تھا۔
کیا حملہ آور کے ساتھی بھی تھے؟
جہاں ابھی تک جائے وقوعہ پر غمگین لوگ کھڑے ہیں اور بحث کر رہے ہیں، وہیں پولیس حملہ آور کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش میں ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ آور کے مقاصد کیا تھے اور کیا اس نے یہ کارروائی تنہا کی ہے۔ البانیہ کے ایک جوڑے کو گرفتار کر لیا گیا ہے کیوں کہ حملہ آور نے ان کو ایک ایس ایم ایس بھیجی تھی، جس میں اس جوڑے سے ہتھیاروں کا بندوبست کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک دوسری ایس ایم ایس کی بنیاد پر چار دیگر افراد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دریں اثناء پولیس نے حملہ آور کے پڑوس سے تقریباﹰ ایک سو افراد سے پوچھ گچھ کی ہے۔
حملہ آور کے ایک فرانسیسی ہمسائے کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حملہ آور کسی بھی طور پر مذہبی نہیں تھا، ’’وہ رمضان میں بھی شراب پیتا تھا اور اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ کھلے عام جنسی حرکات کرتا تھا۔‘‘ دوسری جانب داعش نے کہا ہے کہ یہ ان کا فوجی تھا لیکن ابھی تک اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
بہت سے متاثرین مسلمان تھے
دریں اثناء نیس کے مسلمانوں کی طرف سے متاثرین کے لیے دعائیہ تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ نیس کی سب سے بڑی مسجد کے امام نے اپنے ساتھیوں کے ہم راہ اتوار کے روز مقامی ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کے لیے دعا بھی کی ہے۔ اس حملے میں بہت سے ہلاک شدگان بذات خود مسلمان تھے۔ دوسری جانب اس حملے میں سب سے پہلے وہ شخص مارا گیا تھا، جو اکثر مسجد میں نماز پڑھنے آیا کرتا تھا۔
ایک مقامی اسلامی تنظیم کے سربراہ ابوبکر بکری کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’داعش کے قاتل یہ فرق نہیں کرتے کہ کونسا مسلمان ہے اور کونسا نہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی داعش کے خلاف جنگ میں مل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘
الجیریا کی ایک خاتون ڈاکٹر نادیہ گوئچی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’فرانس میں سبھی لوگ اور اقوام مل کر رہ رہے ہیں اور ہمیں متحد رہنا ہو گا۔ قصووار پاگل قسم کا یہ حملہ آور تھا۔ یہ بیمار لوگ ہیں۔ کسی بھی طرح ایک بچے کو تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں ہے، کسی بچے کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘