نیٹو سربراہی اجلاس کا آغاز
8 جولائی 2016نیٹو سربراہی کانفرنس کا ایجنڈا
جمعہ آٹھ جولائی کو شروع ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی طرف سے گزشتہ روز بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر باراک اوباما اس کانفرنس کے دوران یورپی رہنماؤں کے ساتھ شامی مہاجرین کے بحران، روس اور یوکرائن کے مسئلے اور برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر بھی بات کریں گے۔
اس کے علاوہ اس اجلاس میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا۔ داعش کے خلاف کارروائیوں کے لیے تربیتی عمل بہتر بنانے اور اواکس جاسوس طیارے سرگرم کرنے کی منظوری بھی اس اجلاس میں متوقع ہے۔
افغانستان کے حوالے سے بھی وارسا میں کچھ فیصلے متوقع ہیں جیسے کہ آئندہ برس بھی وہاں نیٹو کا سپورٹ مشن جاری رکھنے اور 2020ء تک افغان فورسز کے لیے فنڈنگ فراہم کرنے سے متعلق فیصلے۔
نیٹو سمٹ میں متوقع فیصلے
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کی طرف چند روز قبل بتایا گیا تھا کہ نیٹو سربراہان دفاعی صلاحیت میں اضافے پر اتفاق کریں گے۔ اس حوالے سے مجوزہ اقدامات میں مختلف مشرقی ریاستوں میں نیٹو افواج کی تعیناتی اور میزائل حملوں سے بچنے کے لیے دفاعی نظاموں کی تنصیب وغیرہ شامل ہیں۔
اسٹولٹن برگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ رواں برس نیٹو کے بجٹ میں آٹھ ارب ڈالر کا اضافہ بھی متوقع ہے۔ روس کی جانب سے خطرات کے تناظر میں اسٹولٹن برگ نے یوکرائن، جارجیا اور مالدووا کے ساتھ تعاون مزید مضبوط بنانے کا بھی ذکر کیا۔
روس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جرمنی کا مؤقف
جرمنی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر ہی زور دیتا آیا ہے۔ تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی جمعرات سات جولائی کو اپنے پالیسی بیان میں مشرقی یورپ میں بڑھتی بے چینی کے لیے روس کو قصور وار قرار دیا۔ انہوں نے مشرقی یورپی ملکوں میں نیٹو دستوں کی موجودگی بڑھانے اور انہیں مزید فعال بنانے کی حمایت بھی کی۔
وارسا میں نیٹو سمٹ پوٹن کے لیے اہم کیوں؟
ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے میرکل کا کہنا تھا کہ یوکرائن کے حوالے سے روسی طرزِ عمل کے باعث اب اُس پر اعتماد تو نہیں کیا جا سکتا مگر نیٹو کی جانب سے پھر بھی اُس کے خلاف مزاحمت کے ساتھ ساتھ مکالمت کا عمل بھی جاری رہے گا۔ میرکل کا کہنا تھا کہ یورپ میں سلامتی صرف روس کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
بریگزٹ کے بعد نیٹو اتحاد میں برطانیہ کی حیثیت
بریگزٹ کے بعد کی صورتحال پر غور بھی نیٹو سمٹ کے ایجنڈے پر ہے اور اس بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ نیٹو اتحاد میں برطانیہ کا آئندہ کردار کیا رہے گا۔ اسی حوالے سے امریکی ایئر فورس کے چیف آف اسٹاف جنرل ڈیوڈ گولڈفین نے جمعہ آٹھ جولائی کو کہا کہ بظاہر ایسے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ برطانیہ نیٹو کے ساتھ مضبوط دفاعی تعلقات میں کمی لانا چاہتا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ برطانوی ریفرنڈم کے طویل المدتی اثرات کے بارے میں اتنا جلدی اندازے نہیں لگائے جا سکتے۔