نیٹو میں وسعت، یورپ کے غیرجانبدار ممالک کم ہوتے ہوئے
22 مئی 2022یوکرینی جنگ نے سویڈٰن اور فن لینڈ کے سکیورٹی خدشات کو تبدیل کر دیا ہے اور اب روایتی طور پر نیوٹرل پالیسی اپنانے والے ان ممالک نے اپنی سلامتی کے تشخص پر نظرثانی شروع کر دی ہے۔
ان دونوں ممالک کی نیٹو میں ممکنہ شمولیت سے یورپ میں غیر جانبدارانہ پالیسی رکھنے والے ممالک کا حجم بھی کم ہو جائے گا۔ ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر سیموئیل گرؤئسنگا کا کہنا ہے کہ جنگ نے نیوٹرل ممالک کے تشخص کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کے رکن ممالک کسی بیرونی حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں وسعت سے یونین کے اپنے دفاع کا تصور کسی حد تک دب کر رہ جائے گا۔ درج ذیل ممالک ابھی تک نیوٹرل رہنے کو فوقیت دیے ہوئے ہیں۔
ترکی نے فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو روکنے کی دھمکی دی
سوئٹزرلینڈ
سوئٹزرلینڈ کو غیرجانبداری کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1815 میں سوئس حکومتی نمائندوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تنازعات سے دور رہیں گے اور کسی ملک کو پیشہ ور فوجی فراہم نہیں کریں گے۔
یورپی طاقتیں بھی یقین دہانی کرا چکی ہیں کہ اس ملک کو تنازعات سے دور ہی رکھا جائے گا۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد بھی سوئٹزرلینڈ کے موقف میں لچک نہیں دیکھی گئی۔ اس نے ہتھیار اور جرمن ٹینکوں کے لیے بارود فراہم نہیں کیا۔
دوسری جانب ایسا دیکھا گیا کہ اب صورت حال تبدیل ہو گئی ہے اور روسی فیڈریشن پر عائد پابندیوں کا حصہ بنتے ہوئے اس ملک نے بھی صدر پوٹن اور وزیر خارجہ لاوروف پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
آسٹریا اور آئرلینڈ
سن 1955 میں آسٹریا نے مستقل غیر جانبداری برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی افواج کے انخلا کا نتیجہ تھا۔ بعد میں اس فیصلے میں نرمی لاتے ہوئے ویانا حکومت نے نیٹو کے رکن ملکوں کی فوجی مشقوں میں شرکت بھی کی تھی۔ اب یوکرینی جنگ نے آسٹرین غیرجانبداری پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
روسی مؤقف میں لچک نہیں آئی، جرمن چانسلر
ابھی تک آسٹریا کے چانسلر کارل نیہمار باوقار انداز میں اپنی ملکی پوزیشن کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ویانا نے یوکرین پر روسی حملے کی پرزور الفاظ میں مذمت کر رکھی ہے۔
برطانیہ سے سن 1921 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے آئرلینڈ غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کا اظہار دوسری عالمی جنگ میں بھی دیکھا گیا۔ آئرش آبادی کی اکثریت نیٹو مخالف ہے۔ اس وقت آئرلینڈ میں غیر جانبداری برقرار رکھنے پر سیاسی اور عوامی حلقے بحث جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یوکرین کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کرتے ہوئے بھی آئرش وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کا ملک عسکری اعتبار سے نیوٹرل ہے۔
قبرص اور مالٹا
قبرص کو روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت میں مشکل کا سامنا تھا کیونکہ ہزاروں روسی اس ملک میں آباد ہیں اور ان میں کئی امیر کبیر بھی ہیں۔ ان روسی امراء نے قبرص میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اب قبرصی حکومت نے یورپی یونین کی پابندیوں کے تناظر میں سخت موقف اپنایا ہے اور کئی روسی امراء سے خاص رعایتیں واپس لے لی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیٹو کے اہم رکن برطانیہ کے قبرص میں دو فوجی اڈے ہیں۔
یوکرینی جنگ کے تناظر میں یورپی یونین کی رکن ریاست مالٹا میں بھی نیوٹرل رہنے کی بحث شدید ہو چکی ہے۔ مالٹا حکومت نے روسی امیر کبیر اشرافیہ کو گولڈن پاسپورٹ دینے کا سلسلہ معطل کر دیا ہے۔
فن لينڈ کا نيٹو ميں شوليت کا فيصلہ، روس کا سخت رد عمل
بحیرہ روم کی اس جزیرہ ریاست کی وزارتِ خارجہ نے حال ہی میں رائے عامہ کا جائزہ مرتب کروایا اور اس میں بھی کثیر تعداد میں عوام نے نیوٹرل رہنے کی حمایت کی اور مخالفت میں صرف چھ فیصد لوگ تھے۔
پروفیسر کرؤئسنگا کا خیال ہے کہ یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت سے ان اداروں کی عالمی جیو پولیٹیکل پوزیشن کو زیادہ وزن اور وقار حاصل ہو گا۔
ع ح/ ع س (اے پی)