نیٹو کی نئی ترجیح: ایک سریع الحرکت فورس کا قیام
6 جنوری 2015خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے مختلف دفاعی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ 28 رکنی مغربی دفاعی اتحادی کی بنیادی توجہ رواں برس ایک سریع الحرکت فوج کا قیام ہے، تاہم اس کی بابت یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ اس کے لیے سرمایہ کون فراہم کرے گا۔
اس کثیرالملکی فوج کے قیام کے بارے میں ہدایات امریکی صدر باراک اوباما اور دیگر نیٹو رکن ریاستوں کے رہنماؤں نے ستمبر میں اپنے اجلاس کے موقع پر دی تھیں۔ اس سریع الحرکت فوج کو کسی بھی رکن ریاست کی جانب سے روسی خطرے سے تحفظ کی درخواست پر تعینات کیا جا سکے گا۔ ماہرین کے مطابق اس فورسز کے ذریعے نیٹو رکن ریاستوں کو روسی صدر ولادیمر پوٹن کے جارحانہ اقدامات اور منصوبوں سے محفوظ بنا کر ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینز اشٹولٹن برگ نے نئی فورس کے قیام کے ساتھ ساتھ اتحاد کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’ہمارے مشترکہ دفاعی اتحاد کے لیے یہ نئے اقدامات سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔‘
اشٹولٹن برگ کا، جنہیں نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے یہ تیسرا مہینہ ہے، کہنا ہے کہ ان کی اعلیٰ ترین ترجیح یہ ہے کہ وہ اس منصوبے پر مکمل اور معینہ مدت کے اندر اندر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
ایک ایسے موقع پر جب افغانستان میں نیٹو کا جنگی مشن یکم جنوری کو اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، مغربی دفاعی اتحاد یورپ کی اسٹریٹیجک حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک نیا ایجنڈا ترتیب دے رہا ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں روس نے یوکرائنی علاقے کریمیا پر قبضہ اور مشرقی یوکرائن میں پراکسی لڑائی شروع کر کے مغربی دفاع اتحاد کو ایک نئے چیلنج کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ مائیکل براؤن کے مطابق، ’نیٹو کے لیے سن 2015ء کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ اپنی رکن ریاستوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے اپنے بنیادی مشن کو کس طرح یقینی بناتا ہے اور یورپ کی سلامتی کی ضمانت کیسے دیتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’یہ اس لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیوں کہ اتحاد کے رہنماؤں نے گزشتہ کئی برسوں سے مشترکہ دفاع کے شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جب کہ روس نے کئی طرح کی غیر روایتی جنگی چالیں ترتیب دی ہیں اور ان سے نمٹے کے لیے مغربی دفاع اتحاد کو ایک نئے اور غیر روایتی جواب کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔‘